مسلم امہ کے نام یورپی یونین کا فیصلہ

ہمارے پاس میڈیا پر، سول سوسائٹی و سیاسی جماعتوں میں اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر مغرب کے جتنے وکیل موجود ہیں اتنے خود مغرب کے ہاں بھی نہیں، ان کا ہر قسم کا تعصب، ظلم و زیادتی برداشت کرینگے، توہین رسالتﷺ و توہین قرآن کو آزادی اظہار کا نام دینگے، ہر قسم کے اسلام مخالف ایجنڈے کو روشن خیالی کا نام دیکر مغرب کی غلامی اور احسانات کا دم بھرینگے۔

 ہمارے میڈیا، سول سوسائٹی و سیاستدانوں کی طرف سے یورپی یونین کی پاکستان مخالف قراردار کو تحریک لبّیک کے تحفظ ناموس رسالتﷺ احتجاج کا ردعمل بتاکر ڈرایا دھمکایا جارہا ہے کہ یورپ پابندیاں لگادے گا اور ہم بھوکے مرجائیں گے گویا رازق و قادر اہالیان مغرب ہیں۔ حقیقتاً یہ کہانی محض اس احتجاج سے شروع نہیں ہوئی اور نہ ہی اتنی پیچیدہ ہے کہ سمجھ نہ آسکے۔

 یورپی یونین پر نگاہ ڈالی جائے تو یہ کیتھالک ریاستوں کا اتحاد ہے جسے خود مغربی حلقے مقدس رومی سلطنت کی بحالی کا نام دے رہے ہیں۔ یورپی یونین نے قرارداد نمبر 2647/2021 پاس کرکے بظاہر تو پاکستان پر الزامات و دباؤ بڑھانے کی کوشش کی ہے مگر حقیقتاً ناموس رسالتﷺ پر وار کرتے ہوئے امت مسلمہ کو اپنا فیصلہ سنادیا ہے کہ وہ ہر حال میں اسلام دشمن ہیں۔ بالکل وہی دشمنی جو قرآن ہمیں سمجھاتا ہے لیکن ہم بالخصوص مسلمان حکمران سمجھنے کو تیار نہیں۔ یو این منشور اور آئی سی سی پی آر کے مطابق کوئی ملک کسی دوسرے ملک کے داخلی معاملات میں دخل اندازی نہیں کرسکتا لیکن یورپی یونین کو محمد عربی ﷺ کی ناموس قبول نہیں اور اس نے سیاسی و معاشی ضابطوں کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہوئے پاکستان کو بلیک میل کرتے ہوے دباؤ بڑھایا ہے کہ تحفظ ناموس رسالتﷺ سے باز رہے۔

 یہ معاملہ پاکستان کی حد تک نہیں ہے نہ ہی آزادی اظہار کا ہے 2005 میں جب ڈنمارک کے پیپرز نے توہین رسالت کرتے ہوئے گستاخانہ خاکے شائع کیے تو مسلم دنیا کی شدید دل آزاری ہوئی اور اس کے خلاف احتجاج کیے تو جرمنی کی ریاست باویریا نے مسلمانوں کے خلاف بدترین کریک ڈاؤن کیا اور گورنر ایڈمنڈ اسٹوئبر نے اسے آزادی اظہار قرار دیا لیکن اگلے ہی سال اسی پیپر نے جب پاپ جان پال دوم اور حضرت عیسیٰؑ کے کارٹون شائع کیے تو باویریا گورنر اسٹوئبر سے لیکر جرمن کونسل تک اور میونخ کے میئر سے لیکر کیتھالک یونیورسٹی تک بلاسفیمی قانون کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔ اسے دوہرا معیار کہا جائے یا دشمنی پاپ جان پال کے کارٹون بلاسفیمی لیکن توہین رسالتﷺ آزادی اظہار۔

 یہ وہی یورپی یونین کو لیڈ کرنے والے جرمنی و فرانس تھے جن کو پرو مسلم ترکش فلم قبول نہیں تھی اور سینماؤں پر اس کے چلانے پر پابندی عائد کی گئی اس کے علاوہ ڈرامہ ارطغرل تو قدامت پرستی لیکن ٹیری جونز و ایلن ایریرا کی کتاب دی کروسیڈز پر مبنی سیریز BBC ٹیلیویژن پر نشر ہو تو عظیم شاہکار و یورپ کی عظمت کی تاریخ۔

 روہنگیا مسلمانوں کے خون میں دھنسی آنگ سان سوچی کی حکومت کا تختہ الٹے تو جمہوریت پر شب خون لیکن فرانس و مغرب چاڈ کے آمر ادرس ڈوبے کو اس لیے بھاتے رہے کہ وہ ان کے اسلام مخالف ایجنڈے پر کاربند رہا جس کے ذریعے نہ صرف چاڈ بلکہ مالی، موریطانیہ، وسطی افریقہ، سوڈان، صومالیہ میں آپریشن برخانے کے نام پر مسلمانوں کا خون بہایا جاتا آرہا ہے، مصر میں محمد مرسی کی جمہوری حکومت اسی لیے قبول نہ ہوئی کہ وہ اسلام کا داعی تھا، ترکی میں فتح گولن کی ایما پر فوجی بغاوت کی کوشش پر مغرب کو تشویش کیوں نہ ہوئی بلکہ اس تحریک کے مفرور مغرب میں ہی پناہ گزین ہیں۔

مشہور کرسچن مبلغ مسٹر فری 2004 میں اپنے مضمون Coming War between Catholicism and Islam میں لکھتے ہیں کہ یورپ ایک بار پھر قدیم ہولی رومن امپائر کی طرف گامزن ہے جس کے نتیجے میں دنیا ایک بار پھر انسانی لاشوں کا ڈھیر بن جائیگی وہ مزید لکھتے ہیں کہ پاپ رجیم کا ماضی نہتے مسلمانوں کے خون سے رنگا ہوا ہے اور ایک بار پھر یورپ اسی کیتھالک ریاست کے لیے پر تول رہی ہے جس کے ہاتھ پر 50 ملین انسانوں کا خون ہے شاید انہیں اس تعداد میں مزید اضافہ چاہئے۔ یقیناً دنیا نے دیکھا کہ عراق میں جمہوریت کے نام پر 2 ملین مسلمانوں کی بلی چڑہادی گئی۔ اس حوالے سے اب یورپ میں شدت دکھی جارہی ہے اور فرانس اس میں پیش پیش ہے جس کی پشت پر پورا کیتھالک یورپ کھڑا ہے۔

 2018 میں میکرون نے کیتھالک یونیورسٹی میں خطاب کیا جس پر کیتھالک ہیرالڈ نے لکھا میکرون ہولی رومن امپائر کی بحالی کی طرف جارہا ہے۔ ترکی یونان معاملے میں مداخلت اور ترکی کی مخالفت کے جواب طیب اردگان نے جب میکرون کو نفسیاتی قرار دیا تو جرمنی سے ہالینڈ تک میکرون بن کر کھڑے ہوگئے۔ فرانس کی اسلام پر پابندیاں کسی سے مخفی نہیں اور اب جرمنی نے بھی متعدد مسلم تنظیموں اور تبلیغی جماعتوں پر پابندی عائد کردی ہے۔ آسٹریا، ہالینڈ، ہنگری، سلواکیہ بھی اب کھل کر اس کا اظہار کررہے ہیں۔

گزشتہ ماہ اپریل میں 20 فرانسیسی جنرلز اور 1500 سیکیورٹی اہلکاروں نے میکرون کو اسلام مخالف کاروائی اور سخت پابندیوں کے لیے دھمکی آمیز خط لکھ کر ثابت کردیا ہے کہ قدامت پسندی و شدت پسندی مسلمانوں میں نہیں بلکہ اہالیان مغرب میں رچی بسی ہے۔ گزشتہ برس اگست کے اوائل میں لبنانی داراحکومت بیروت میں ہولناک دھماکہ ہوا نتیجتاً لبنان معاشی طور پر مفلوج ہوگیا جس کے بعد میکرون نے لبنان کو ایڈ کے عیوض اسلام مخالف ریفارمز پر مجبور کیا بالکل اسی طرح اب پاکستان پر معاشی پابندیاں لگانے کی دھمکیاں دیکر دباؤ بڑھایا جارہا ہے کہ اسلام مخالف قوانین لائے جائیں۔ گزشتہ دو دہائیوں پر نگاہ ڈالی جائے تو واقعات کا ہر موڑ اس کی گواہی دے رہا ہے کہ انسانی حقوق چارٹر، جمہوریت، آزادئ اظہار، معاشی و سماجی امداد فقط و فقط اسلام مخالف ہتھیار کے طور پر استعمال ہورہے ہیں پوری مسلم دنیا اس وقت آگ و خون کی لپیٹ میں ہے اب وقت کا تقاضا تو یہی ہے کہ مسلم حکمران قرآن کی بات کو سمجھ لیں ورنہ تاریخی و معروضی حقائق بتاتے ہیں کہ عنقریب وہ وقت آئیگا جب نہ وہ خود محفوظ ہونگے نہ ہی بیرون دنیا میں انکے کاروبار محفوظ رہینگے۔