عید تو نام ہی ہے خوشیوں کا ہے اور ہر بندے کا خوشی کا معیار اور انداز مختلف ہوتا ہے۔ بس اپنی اپنی سوچ ہے ۔ ماں باپ اور گھر کے دیگر بڑے لوگوں کو یہ ہوتا ہے کہ اس دن سب کو خوش کرنے کیلئے بلایا جائے دعوت کی جائے جس کی وجہ سے وہ اپنی محنت وسائل اپنی قیمتی اشیاء قربان کرنے کو تیار رہتے ہیں ۔ بچوں بڑوں کا خیال رکھتے ہوئے ان کے لئے تحائف اور کپڑوں کا بھی انتظام کرنے کی پوری کوشش کرتے ہیں ۔ بس یہاں آکر وہ تھوڑا پریشان ہو جاتے ہیں ۔
گرمیاں شدید روزوں میں ایک تو باہر نکلنا مشکل پھر اگر ہمت کرکے بازار کا رخ کر بھی لیا تو جتنا پیسہ ان کے ہاتھ میں ہوتا ہے ۔ مہنگائی اور مقابلے کی دوڑنے انواع و اقسام کی اشیاء نے اور منہ مانگی قیمتوں نے ان کو نہ صرف چڑایا بلکہ افسردہ بھی کردیا۔ مطلوبہ چیز بھی نہ ملی اور وقت ، کرائے اور اپنی سی محنت کا دکھ لگا مگر پھر بھی کچھ نہ کچھ تو لینا ہے خوشیاں جو بانٹی ہیں اور اپنا حق جو نبھانا ہے ۔
اسی طرح گھریلو خواتین مہمانوں کیلئے دامادوں کیلئے، بیٹیوں کیلئے کھلانے پلانے کے انتظامات میں پہلے سے ہی تیاریاں شروع کردیتی ہیں۔ اس مہنگائی میں مرغی ، مچھلی ، گائے کا گوشت ، بکرے کا گوشت ، پھل یہاں تک کہ دودھ دہی ، لیموں مصالحے سب ہی کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہوتی ہیں مگر پھر بھی آفرین ہے ان محبت کے ماروں پر جو دل و جان سے اپنی ان جانوں کیلئے اپنی حیثیت سے بڑھ کر قربانیاں دیتے ہیں اور مہمانوں کو خوشی خوشی اچھا کھلاتے پلاتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں ایسے میں تمام لوگوں کو اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ ایک دوسرے کی قدر کریں اور جو بھی ان کو دیا جا ئے خوشی اور شکر گزاری اور واقعتا قدر دانی سے نہ صرف قبول کیا جائے بلکہ ان کے حق میں خوشی کا بھرپوراظہار کرے ان کیلئے اللہ سے دعا ئے خیر طلب کی جائے تاکہ انہیں بھی دونوں جہاں کی خوشیاں نصیب ہوں ۔
آج امی ہم میں نہیں مگر ان کی اتنی باتیں ہیں جنہیں سوچ کر بھی میری خوشی دوبالا ہو جاتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ میرے والدین کو جنت الفردوس عطا فرما ئے (آمین) جنہوں نے ہمارے لئے کتنی قربانیاں دیں ۔
مہنگائی کا مسئلہ ہمیشہ سے رہا ہے مگر اپنے اپنے ظرف کی بات ہے ۔ اپنی حیثیت میں رہتے ہوئے جس طرح وہ مہمان نوازی کرکے خوش ہوتے تھے کہ واقعی مہمان بھی شاداں اور صحیح معنوں میں عید ہوجاتی تھی ۔ پہلے ہم تھوڑے پر بھی خوش تھے مگر آج اللہ کا شکر ہے سب کچھ ہوتے ہوئے بھی گلے شکوے ہوتے ہیں۔
غریب تو غریب متوسط لوگ بھی پریشان ہیں لیکن پھر بھی حیرت ہے سب کچھ ہوتے ہوئے بھی بازار بھرے نظر آتے ہیں ۔ خواہشات نفس کو لگام دیں اپنے تھوڑے پر قناعت کریں ۔ اپنے سے بڑھ کر دوسروں کی مدد کریں اور ان کے لئے مہنگائی کے مسئلے کو کم کریں ۔ ہر سطح پر یہ کام ہو ، حکومتی ادارے سے لیکر عام پرچون والا بھی اس رحمتوں اور برکتوں کے مہینے کو غنیمت جان کر خود ساختہ مہنگائی نہ کرے بلکہ فراغ دلی کا مظاہرہ کرے حسن ذن سے کام لے ۔ جھکتا تو لے اور نیکیاں لوٹے تو یقین جانئے یہ مہنگائی اور عید کی تیاری کی تمام تر پریشانیاں ختم ہو جائیں ۔ خریدار بھی اپنا وقت اور توانائی نہ برباد کریں راہ خدا میں فراغ دلی سے خرچہ کرے اپنا اور دکانداروں کا وقت بچائیں ۔ اللہ آپکی نیتوں سے واقف ہے ۔
اللہ تعالیٰ ہمارے ملک کے لوگوں کو نیک ہدایت دے کہ یہ فلاح معاشرہ کیلئے دل کھول کر کام کریں ۔ سب بندوں کو بھائی سمجھیں اور تمام لوگ ایک دوسرے کی محنت کی قدر کرتے ہوئے انسانیت کا حق ادا کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ مہنگائی کے بھوت پر نہ صرف قابو پایا جائے بلکہ پرسکون ماحول میں خریداری کو آسان بنایا جائے تا کہ عید کا مہنگائی سے کوئی تعلق نہ ہو بلکہ تعاون ہی تعاون ہو ۔ ایک دوسرے کو دیکھ کر خوش ہوں اور برکت کی دعائیں ہوں اور ہمیشہ ہوں صرف رمضان میں ہی نہیں ہر وقت ہر جگہ تو پھر ہی ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے مسلمان ہونے کا اور روزہ رکھنے کا حق ادا کیا ۔ اپنی خوشیوں میں ضرورتمندوں کا خیال رکھ کر ہی تو خوشیاں سمیٹی جا سکتی ہیں ورنہ لوٹ مار سے تو سوائے بے سکونی کے کچھ بھی حاصل نہیں ۔
خوشی اور سکون کا نام عید ہے لہٰذا جگہ جگہ ایک دوسرے سے تعاون کریں کاٹیں نہیں بلکہ کاروبار کو چلنے دیں لوٹیں نہیں دیتے رہیں جب تک دوسروں کو خوشیاں نہ دو گے کیسے خوش رہ سکتے ہو ؟ رکشہ ٹیکسی، بس ، چنگ چی کے کرایوں میں ہر گز اضافہ کرکے عوام کو پریشان کرنا کسی صورت جائز نہیں ۔ اس طرح کو ئی بھی کام نا جائز طور پر کرکے پانی بند کرے ۔ پانی کو مزید مہنگا بیچنا ، بلا وجہ تگنیاں پیدا کرکے عوام کو پریشان کرنا بھی مہنگائی کے کھاتے میں آتا ہے جو سراسر ناجائز اور غلط ہے جب آپ برائی سے ہی نہیں بچیں گے تو آپ نے روزہ کیا رکھا ، نماز کیا پڑھی ؟ آپ کی عبادت تو نہ ہوئی تو بھلا یہ کیسی عادت ہوئی ؟ غور کریں اپنا جائزہ لیں احتساب کریں اس سے پہلے کہ آپ کا احتساب کیا جائے۔