ماہ رمضان میں افطار کرانے کی خاص اہمیت ہے۔ افطار کرانا بہت اجر کا باعث ہے۔حدیث کے مفہوم کے مطابق افطار کے وقت خاص خوشی حاصل ہوتی ہے۔ افطار کرانا باعث اجر و ثواب ہے۔ رمضان میں خاندان اور احباب ایک دوسرے کو افطار کی دعوت دیتے ہیں۔ خوب اہتمام کیا جاتا ہے ۔ رمضان میں شیطان قید ہوتا ہے تو نیکی کرنی آسان ہو جاتی ہے۔ رمضان کا خصوصی اثر دل پر ہوتا ہے۔ دل نرم ہو جاتے ہیں، زمین جب نرم ہوتی ہے تو اس میں اگانے کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے۔ اسی طرح دل نرم ہوں تو محبتیں بڑھتی ہیں تعلقات میں مضبوطی آتی ہے۔ ویسے بھی ہمارا دین صلہ رحمی کو بہت اہمیت دیتا ہے۔
حدیث کا مفہوم ہے کہ صلہ رحمی سے عمر لمبی ہوگی،رزق وافر ہوگا اور مرنے کے بعد لوگوں میں اچھا نام ہو گا۔ یہ افطار دعوتیں دلوں کی کدورتوں کو دھونے کا ایک بہانہ ہوتا ہے۔ خاندان والوں کی دعوت کرنا بھی سنت ہے، جبکہ آپ کا مقصد اصلاح ہو۔ اور نمود و نمائش مقصود نہ ہو۔ اپنے ان رشتہ داروں کو خصوصا دعوت دیں جن سے ملے جن کو گھر بلائے عرصہ گزر گیا ہے۔ انسان کا دل تنگی پر جلد مائل ہو جاتا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ کسی کو افطار پر آپ بلا تو لیں مگر آپ کو یاد آئے کہ انہوں نے تو کبھی جھوٹے منہ بلایا بھی نہیں، کبھی کھجور تک نہیں بھیجی ہمیں، بلایا تو تھا مگر کوئی خاص اہتمام نہیں کیا تھا۔
ایسی دعوتیں صرف اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے کریں لوگوں کی رضا چاہیں گے تو لوگ تو کبھی خوش نہیں ہو سکتے۔ جب آپ اللہ کی خوشنودی کے لئے کریں گے تو وہ ضرور دلوں میں گنجائش پیدا کر دے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے “صلہ رحمی کرنے والا وہ نہیں جو بدلے میں صلہ رحمی کرے بلکہ حقیقی صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے کہ اس سے قطع رحمی کی جائے تو پھر بھی وہ صلہ رحمی کرے”۔
دیکھا یہ گیا کہ رمضان میں عموما لوگ کسی کو بلانے سے احتراز کرتے ہیں کہ اس سے وقت کا بہت ضیاع ہوتا ہے۔خواتین کا سارا دن کھانا بنانے میں لگ جاتا ہے اور ساری رات برتن دھونے اور گھر سمیٹنے میں لگ جاتی ہے۔ جس سے دن بھر کی نمازیں مختصر ہو جاتی ہیں اور رات کو تراویح اور قیام الیل رہ جاتی ہے۔ کسی حد تک یہ بات درست بھی ہے۔
مگر اگر گھر کے تمام افراد مل جل کر کام کریں تو بہت سہولت ہو گی۔ گھر کے حضرات کچھ اسان کام انجام دے سکتے ہیں مثلا شربت تیار کرنا، فروٹ کاٹ دینا اور دسترخوان لگا دینا۔ اس سے خواتین کو بہت مورال سپورٹ مل جاتی ہے۔ مگر عموما گھر کے حضرات افطار سے قبل تھکن کا شکار ہوتے ہیں اور افطار کے بعد سستی کا۔ خواتین اپنے بیشتر کام اگر پہلے نمٹا لیں تو بھی افطار کے وقت مشکل پیش نہ آئے گی۔ اگر افطار کے بعد کھانا بھی ہے تو افطاری میں بہت زیادہ چیزیں نہ تیار کی جائیں۔ اس سے رزق کا ضیاع ہوتا ہے کیونکہ افطاری کے سموسے، پکوڑے، فروٹ چاٹ وغیرہ دوسرے وقت نہیں کھائے جاتے۔ اگر مہمانوں کے ساتھ بچے بھی ہیں تو ان کے لئے پلیٹیں اور شربت کے کلاس پہلے تیار کر لیں۔ بچوں کو رمضان کے چھوٹے چھوٹے تحفے دیں خواہ وہ پنسل یا چاکلیٹ ہی ہوں۔
ہمارے ہاں دعوت کے بعد کا سب دھونا سمیٹنا خاتون خانہ پر ہی چھوڑ دیا جاتا ہے اور مہمان بیٹھے خوش گپیاں کرتے ہیں، خاتون خانہ بےچاری خود کو کوس رہی ہوتی ہیں کہ کیا ضرورت تھی۔ ایسے میں مہمان خواتین اگر مل جل کر برتن سمیٹنے اور دھونے میں مدد کریں تو اس کے تین فائدے ہوں گے پہلا تو ہل جل کرنے سے کھانا ہضم ہونے میں مدد ملے گی۔ دوسرا کام جلدی نمٹ جائے گا اور تیسرا آپس میں گپ شپ کا موقع بھی مل جائے گا۔ کبھی کبھی کسی مزیدار کھانے کی ترکیب اور زائقے کا “خوفیہ راز” بھی معلوم کیا جا سکتا ہے۔
لوگوں کو سہولت دینے والے بنیں۔ ایک دوسرے کو افطار میں مدعو ضرور کریں۔ اللہ آپ کے رزق میں کشادگی دیں گے۔ اور ویسے بھی رشتہ داروں سے حسن سلوک میں دوہرا اجر ملتا ہے۔ ایک صدقے کا اور دوسرا صلہ رحمی کا۔