ایک زمانہ تھا کہ شاگرد استاد کو بڑی رشک کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور دل میں خواہش رکھتے تھے کہ وہ بھی بڑے ہوکر اپنے استاد کی طرح قابل ہوکرباعزت زندگی گزاریں گےاور تاریخ اس بات کی گواہ ہے جس نے سچائی اور لگن کے ساتھ اپنے اس جذبہ کو قائم رکھا وقت نے انہیں ایسی ہی قابل احترام زندگی عطا کی ۔
لیکن جب اس معاشرے کے جاہل ٹھیکیداروں نے اپنی فرعونیت کی حکمرانی کو خطرے میں دیکھا کہ پڑھ لکھ کر ایک معمولی انسان بھی نہ صرف معاشی طور پر مضبوط ہوجاتا ہے بلکہ ہر چھوٹا بڑا اس کو عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور وہ نہ صرف اپنے بنیادی حقوق وفرائض کی ذمہ داریاں بخوبی نبھاتا ہے بلکہ دوسروں کی بھی رہنمائی کرکے ایک بہتر زندگی گزارنے کا سلیقہ سکھادیتا ہے اوریہ وہ خطرے کی گھنٹی تھی جس کی گونج نے اس بات کو واضح طور پر روز روشن کی طرح عیاں کردیا کہ وہ دن دور نہیں جب فرعونوں کی حکومت کا خاتمہ ہوجائے اور جہالت کی بنیاد پر غلامی کرنے والے علم کی روشنی حاصل کرکے ان کا تختہ الٹ دیں۔ لہذا انہوں نے ایسی سازش کا جال بچھایا کہ کسی کو احساس بھی نہ ہوا کہ ایک معزز قوم کیسے آہستہ آہستہ جہالت کی کھائی میں گرتی چلی گئی یہاں تک کہ وہ اپنی شناخت ہی کھو بیٹھی ۔
آج کا وہ استاد جو انسانوں کو جہالت کے اندھیرے سے نکال علم کی روشنی میں زندگی گزارنے کا سلیقہ سکھاتا تھا اب اپنی زندگی کی ناؤ کو بچانے کی کوشش میں مصروف ہے کیونکہ آج بھی چودہ سو سال پہلے والی قوم علم کے مدمقابل وہ ہی ہٹ دہرم اور صدی بنی اسرائیل کی قوم ہے جو علم رکھتے ہوئے بھی دنیا کو اپنا دین وایمان بنائے ہوئے تھی اور اللہ اور اس کے رسول کی کھلی نافرمانی کرکے دعوہ کرتی تھی کہ وہ ہی جنت کے حق دار ہیں۔ آج کی قوم بھی جہالت کے اسی اندھیرے میں بھٹک رہی ہے اس دنیا کو زندگی کا حاصل سمجھ کر ایسے راستے پر گامزن ہے جس کی کوئی منزل نظر نہیں آ تی۔
پہلے ماں باپ بچوں کو تعلیم دیتے تھے کہ بیٹا استاد کی عزت کرنا اللہ تمہیں عزت دے گا آج کے ماں باپ کو اپنے بچوں کوتو کیا عزت کرنا سکھائیں گے بلکہ ان کے سامنے استادوں سے اس انداز میں بات کرتے ہیں جیسے فیس دے کر انہوں نے ٹیچر کو خرید لیا ہے تو پھر بچے کیسے اس استاد کی عزت کریں گے۔ ایمانداری سے اللہ کو حاضر وناظر جان کر اپنا محاسبہ کیجئے کہ ایک باپ، بھائی کی حیثیت سے آپ کو یاد ہے کہ آپ نے کبھی اپنے بیٹے یا بیٹی کو، اپنی بہن یا بھائی کو ایک مرتبہ بھی یہ کہا ہو کہ استاد کی عزت واحترام آپ پر اسی طرح فرض ہے جیسا کہ ماں باپ کا؟
نہیں کہا کیونکہ ہم استاد کو وہ مقام واہمیت ہی نہیں دیتے جس کے وہ حق دار ہیں۔ ہم دولت مند کے قدموں میں بیٹھنا پسند کرلیں گے مگرایک استاد کے پاس چند لمحے گزانے کا وقت نہیں نکال سکتے ۔
یہی وہ بدنصیبی ہے جس کی وجہ سے آج ماں باپ کو وہ عزت واحترام نہیں ملتا جس کے وہ مستحق ہیں۔رشتوں میں وہ تعلق ویگانگت نظر نہیں آتی جو رشتوں کو جوڑے رکھتی تھی، وہ تہذیب وادب احترام نظر نہیں آتا جو بزرگوں کی دعائیں لینے کا سبب بنتا تھا۔ بچوں کے لئے ماں باپ میں اسی وقت تک دلچسپی رہتی ہے جب تک وہ ان کی جائز وناجائز ہر خواہش کو پورا کرتے رہتے ہیں اور جب وہ اس قابل نہیں رہتے تو وہی بچے ان سے اس طرح جان چھڑانا چاہتے ہیں جیسے کوئی خود کو کسی مصیبت سے بچاتا ہے۔ کیونکہ انہیں ماں باپ کی اہمیت کا اندازہ ہی نہیں ہوتا، رشتوں میں کسی احساس وجذبہ کا کوئی تعلق ہی نہیں پیدا ہوتا صرف ضرور ت کا بندھن ہوتا ہے جیسے ہی ضرورت ختم ہوئی تو تو کون اورمیں کون ؟
اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ استاد ہی زندگی کے بہترین اصولوں کی رہنمائی کرکے زندگی کا سلیقہ سکھاتے ہیں جو کامیاب زندگی کی ضمانت ہوتی ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ پہلےشاگرد کی ساری جدوجہد اور کوشش یہی ہوتی تھی کہ وہ استاد کی نظر میں سب سے اچھے شاگرد کی فہرست میں شامل ہوںاور یہی جذبہ ان کو علم کی ایسی روشنی عطا کرتا تھا جس سے وہ دوسروں کی زندگی میں بھی روشنی پھیلاتے تھے اور انہیں ہدایت کے راستے کی طرف رہنمائی کرنا اپنا فرض سمجھتے تھے۔
وقت کی ستم ظریفی ہے کہ اب نہ وہ استاد رہے جو شاگرد کو اپنی اولاد کی طرح تعلیم کے ساتھ تربیت کرتے تھے اور شاگرد بھی وہ نہیں رہے جو استاد کو ماں باپ کادرجہ دے کر عزت واحترام سے ان کی بات ماننے کو باعث فخر سمجھتے تھے ۔
یہ بہت سنگین صورت حال ہے جس کا کسی کو کوئی احساس نہیں ہورہا کہ ہم خود تباہی کی طرف جارہے ہیں اور یہ تباہی نہ صرف آج کے انسان کی ہے بلکہ آنے والی کئی نسلوں کی بربادی کا سبب ہوگا۔ کیونکہ ہم نے علم کی روشنی سے اپنی زندگیوں کو محروم کردیا ہے ۔
استاد ایک ایسا قلم ہوتا ہے جس سے جتنا لکھو گے اتنا ہی قلم کی روانی بڑھتی جاتی ہے ۔ استاد کی نصیحت اور سنہری اصول زندگی کی شاہراہ پر ایسے چراغ ہوتے ہیں جن کی روشنی قدم قدم پر انسان کوپستی میں گرنے سے بچاتی ہے اور منزل مقصود پہنچنے کا راستہ ہموار کرتے ہیں۔
ہمارے نزدیک علم سے زیادہ دولت کی اہمیت ہے ۔ ایک استاد کا رشتہ آتا ہے توہم انکار کردیتے ہیں یہ سوچ کر کہ اتنی محدود آمدنی میں کیسے گزارہ ہوگا ایک امیر گھرانے سے رشتہ آجا ئے تو یہ بھی نہیں سوچتے کہ خاندان کیساہے؟ لڑکے کی کم تعلیم بعد میں مشکلات پیدا کرسکتی ہے اس وقت صرف دولت کی آسودگی نظر آتی ہے اور رشتہ کردیا جاتا ہے۔ . . . .جاری ہے