جنگ کا میدان سجا تھا ۔گھوڑوں کی ٹاپوں اور تلواروں کی جھنکار سے فضا گونج رہی تھی ۔ایک جانب کیل کانٹوں سے لیس دشمن کی ہزار سواروں پر مشتمل فوج تھی جس میں چھ سو زرہ پوش اور سوار تھے۔اونٹوں پر لدے شراب کے مٹکے اور گانے والی لونڈیاں سپاہیوں کے خوشی کا سامان کرنے کے لئے ساتھ تھیں ۔یہ لشکر اپنی طاقت کے نشے اور اسلحے کے زعم پر آگے بڑھا چلا رہا تھا۔
ادھر دوسری جانب 300 سے کچھ زائد افراد بے سروسامان اس بڑے لشکر کے مقابلے پر موجود تھے ۔دشمن کے غرور اور تکبر کے مقابلے میں اس چھوٹے سے لشکر میں بے پناہ عاجزی تھی اور یہ محض اپنی ایمانی قوت کے بل بوتے پر اس بڑی طاقت سے ٹکرانے کا حوصلہ رکھتے تھے ۔دونوں لشکر کی افرادی قوت دیکھتے ہوئے کوئی بھی جنگ کا نتیجہ بیان کر سکتا تھا لیکن اس جلیل القدر رب کو تو کچھ اور ہی منظور تھا ۔اس چھوٹے سے لشکر کے کمانڈر، رحمان کے بندے نے درد بھرے انداز میں اپنے رب کو پکارا کہ :
“اے اللہ! یہ ہیں قریش! یہ اپنے کبر اور اعجاب کے نشے میں سرشار ہوکر اس غرض سے آرہے ہیں کہ تیرے بندوں کو تیری اطاعت سے باز رکھیں اور تیرے رسول کو جھٹلائیں ۔پس اے اللہ! اپنی نصرت بھیج جس کا تو نے مجھ سے وعدہ کر رکھا ہے۔ اے اللہ! ان کو ہلاکت میں ڈال دے۔ اے اللہ! اگر یہ چند جانیں آج ختم ہوگئیں تو پھر قیامت تک تیری عبادت نہ ہوگی ۔”
رحمن کے بندے کی رقت آمیز دعا عرش تک جا پہنچی اور نصرت الہی کے بادل ان پر سایہ فگن ہو گئے ۔ فرشتوں کی فوجیں رحمن کے حکم سے ان کی مدد کو اتر آئیں ۔
دونوں فوجوں میں گھمسان کا رن پڑا ۔تلواروں سے تلواریں ٹکرا رہی تھیں،فضا ان کی اڑتی ہوئی چنگاریوں سے روشن تھی ۔گھوڑے کے سُم زمین پر پوری قوت سے ٹکرا رہے تھے ۔فضا گرد و غبار سے اٹی تھی ،زمین و آسمان گرد کی لپیٹ میں تھے ۔ لاشیں کٹ کٹ کر زمین کی خاک ہورہی تھیں اور زمین کا سینہ لہو رنگ تھا ۔ایک طرف جاہلیت کے فرسودہ رسم و رواج اور اپنی قیادت کا بچاؤ کرنے کے لئے کھولتا خون تھا تو دوسری جانب خطہ ارضی پر تاریکیوں کا سینہ چیر کر اسلام کا نور پھیلانے کے لیے مچلتا دل ۔
دشمن کے ایک ہزار کے لشکر کے مقابلے میں محض تین سو سے کچھ زائد افراد جن کا سازوسامان بھی مختصر تھا بظاہر بے بس اور لاچار دکھائی دے رہے تھے ۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ شاید وہ اپنا دفاع بھی نہ کر پائیں گے لیکن صورتحال اس کے بالکل برعکس تھی ۔کتنا عجیب لمحہ تھا کہ دوران جنگ کبھی باپ اور بیٹے کا، بھائی اور بھائی کا ، چچا اور بھتیجے کا اور کبھی خسر اور داماد کا سامنا ہوا اور کئی مرتبہ وہ ایک دوسرے کی تلواروں کی زد میں آ گئے لیکن اس دین کے پیروکاروں نے اور شمع رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے پروانوں نے اس عظیم مقصد کے لئے خونی رشتوں کو فراموش کر دیااور پھر تاریخ نے ایک بار پھراپنے آپ کو دہرایا ۔
قدرت نے جس طرح ابابیلوں کے ذریعے ہاتھیوں کے لشکر کو تہس نہس کروایا اسی طرح بے سروسامانی کی حالت میں لڑتے ہوئے ان چند جانبازوں کو قریش کے اس بڑے لشکر پر فتح دلوائی ۔2 ہجری 17 رمضان یوم الفرقان کو ہونے والا معرکہ اللہ تعالی کا فیصلہ سامنے لے آیا اور حق اور باطل میں فرق واضح کر دیا ۔قرآن میں اللہ تعالی نے بتادیا کہ ان کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے پیش کردہ نظام اور کفر میں سے کس کو زندہ رہنے اور پنپنے کا حق ہے۔
“لو فیصلہ تمہارے سامنے آگیا ۔(سوره الانفال: 19)
معرکہءبدر نے جہاں مسلمانوں کے حوصلوں کو بلند کیا تو دوسری جانب قریش کے غرور کا بت ٹوٹ کر بکھر گیا ۔اس معرکے میں مسلمانوں کے 22 سپاہیوں نے اپنے مقصد کی خاطر شہادت کا رتبہ حاصل کیا اور دشمن کے 70 افراد کو موت کے گھاٹ اتارا اور 70 افراد کو جنگی قیدی بنا لیا ۔اس معرکے نے اسلامی تاریخ میں ایک نیا باب روشن کیا ۔ یہ اللہ تعالی کا مسلمانوں پر احسان تھا کہ اللہ نے مسلمانوں کی فرشتوں کے ذریعے مدد کی اور اللہ تعالی قرآن میں بھی اس بات کو بیان کرتے ہیں :
“اب یاد کرو وہ وقت جب کہ تم لوگ تھوڑے تھے۔ زمین میں تم کو بے زور سمجھا جاتا تھا تم ڈرتے رہتے تھے کہ کہیں لوگ تم کو مٹا نہ دیں۔ پھر اللہ نے تم کو جائے پناہ مہیا کی ۔اپنی مدد سے تمہارے ہاتھ مضبوط کیے اور تمہیں اچھا رزق پہنچایا تاکہ تم شکر گزار بنو ۔”(سوره الانفال 26)
غرض اس معرکے نے فیصلہ کردیا کہ اسلام اور کفر میں سے وہی باقی رہے گا جو اپنے باقی رہنے کا واضح جواز رکھتا ہو اور عوام کو بھی اختیار ہے کہ وہ چاہیں تو کفر کی راہ پر چل کر ہلاکت کے گڑھے میں گریں یا اسلام کو اپنا کر مستقبل کے افق پر چمکیں۔