اس بات میں پورے پاکستان ہی کو نہیں، دنیا کو بھی شک نہیں ہونا چاہیے کہ کائنات میں چھوٹا سا “زمین” نامی ایک سیارہ ہے جس کے بہت سارے ملکوں کے ہزاروں شہروں میں اگر کوئی پُر امن ترین شہر ہے تو وہ کراچی ہے جہاں لوٹنے والا ہو یا لٹ جانے والا، دونوں ہی اتنے پُر امن طریقے سے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے نظر آتے ہیں جس کی مثال نہ تو گزرجانے والی تاریخِ انسانی میں کہیں ملتی ہے اور نہ ہی اس بات کا کوئی امکان پایا جاتا ہے کہ آنے والا مستقبل میں کوئی ایسی مثال قائم کر سکے گا۔
لٹ جانے والوں اور لوٹ لئے جانے والوں کی مثالیں اگر ضبط قلم کرنے بیٹھ جائیں تو اتنی کتابیں چھپ جائیں گی کہ لائبریریوں میں ہی نہیں، کتابیں جمع کرنے کا شغف رکھنے والوں کے گھروں کی گنجائش بھی ختم ہو کر رہ جائے گی۔
کہا جاتا ہے کہ کراچی کبھی اتنا تاریک اور پُر شور ہوا کرتا تھا کہ کراچی میں بسنے والے یا کراچی سے باہر سے آنے والے لوگ نہ تو گھروں میں سکون کے ساتھ بیٹھ سکتے تھے اور نہ راتوں کو اپنے اپنے گھروں میں بھر پور نیند لے سکتے تھے۔ غالباً یہ زمانہ 1947 سے 1960 تک کا رہا ہوگا۔ اس “بد امنی” کی وجہ سے لوگ دن بھر گلیوں میں بیٹھ کر وقت گزارا کرتے اور رات فٹ پاتھوں پر ہی سو جایا کرتے تھے۔ اس وقت کے کراچی میں ایک خوبی کی بات یہ تھی کہ ہر جانب “بے چینی” کے باوجود چوری چکاری کا کوئی خوف ہوا ہی نہیں کرتا تھا اور لوگ گھروں کے دروازے، دن ہو یا رات، کھول کر رکھا کرتے تھے۔
بات در اصل یہ ہے کہ چوری یا ڈاکا زنی کا خوف تو ان کو ہو جن کے پاس کسی شے کے چوری ہوجانے کا ڈر ہو۔ یہ شہر لٹ پٹ کر آنے والوں کا ایسا مسکن تھا جو بقول “مرزا” ننگے بھوکوں کیلئے بطور پناہ گاہ یہاں پر آباد “بادشاہوں اور بادشاہ زادوں نے ہمدردی وخلوص و محبت عطیہ کر دیا تھا۔ یہاں آنے والے اپنے ہمراہ اپنے علاوہ لائے بھی کیا تھے، بس وہی کچھ جو پہنا، اوڑھا، ہاتھوں، کندھوں یا سروں پر اٹھا کر لایا جا سکتا تھا۔ جب ان کے پاس تھا ہی کچھ نہیں تو پھر لٹ جانے یا کسی چیز کے چوری ہوجانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا اس لئے جس کا جہاں جی چاہتا بیٹھ جاتا اور جب نیند آتی تو جہاں ہوتا لیٹ کر اپنی نیند پوری کر لیا کرتا۔
پاکستان کے قیام سے پہلے اور قیام کے فوراً بعد اگر کراچی کا ایک طائرانہ جائزہ لیا جائے تو کراچی کی وہ شکل جس کو فخر کے ساتھ “کراچی” کہہ کر یاد کیا جاتا تھا، اس کا حدودِ اربعہ نہایت محدود تھا۔ وہ آبادی جس کو کراچی کی اصل آبادی کہا جاتا ہے وہ اُس “کراچی” میں آٹے میں نمک سے بھی کم تھی۔ اس لئے کہ جو کراچی پوری دنیا میں کراچی کے نام سے پہچانا جاتا تھا اس کی زیادہ آبادی عیسائیوں، یہودیوں، پارسیوں اور غیر پاکستانیوں پر مشتمل تھی یا پھر ممبئی سے سمندری ربط کی وجہ سے کچھی میمن یہاں زیادہ تر عارضی طور پر اور بعد میں کافی حد تک مستقل بنیادوں پر آباد ہو گئے تھے۔
سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ اس شہر میں صدیوں سے آباد بلوچ جن کی عرفیت “مکرانی” تھی، وہ پہلے بھی بہت شان و شوکت سے رہنے کے عادی نہیں تھے اور 73 سال گزر جانے کے باوجود آج بھی پرانی بود و باش والا انداز ان کا طرہ امتیاز بنا ہوا ہے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ ایک ایسی آبادی جو اس وقت بہت عسرت کا شکار ہو کر کراچی جیسے شہر میں لاکر بسائی گئی، اسے اپنے اور یہاں پر موجود پہلے سے آباد لوگوں کیلئے کسی قسم کا کوئی بڑا فرق محسوس نہ ہو سکا۔
دور بدلا۔ کچے در و دیوار پختہ سے پختہ اور گھروں کی منزلیں بلند سے بلند تر ہوتی چلی گئیں۔ شہر کی سڑکیں، گلیاں، دفاتر، لش پش کرتی بسیں، گاڑیاں اور بازار چھم چھم کرنے لگے۔ بجلی کے قمقموں سے سارا شہر جگمگ جگمگ کرنے لگا۔ جوں جوں عمارتیں پختہ سے پختہ تر اور شہر روشن سے روشن تر ہوتا گیا، دل سخت سے سخت اور ذہن تاریک سے تاریک تر ہوتے چلے گئے۔ نوبت یہاں تک آئی کہ دلوں کی سختیاں لسانی دشمنیوں اور روشنیاں جہالت کی تاریکیوں کی شکل اختیار کرتی چلی گئیں۔ یوں ایک شہر جنگ و جدل کے میدان میں تبدیل ہو کر رہ گیا۔
کہا جاتا ہے کہ “کچھ” طاقتور اداروں نے اس شہر کو کئی دھائیوں کی انتھک جدوجہد کے بعد ایک مرتبہ پھر سے “پُرسکون و پُر امن” شہر بنا کر رکھ دیا ہے۔ مثلاً چند دن پہلے کی بات ہے، مغرب اور عشا کے درمیان بیٹا دفتر سے گھر آیا، بہو نے دروازہ کھولا، بیٹا گھر میں داخل ہوا تو اپنی کار سے کچھ سامان نکالنے دوبارہ باہر نکلا۔ کار کا دروازہ کھولا ہی تھا کہ دو افراد موٹر سائیکل روک کر اس انداز میں اترے جیسے اس کے دوست ہوں، پستول دکھا کر اس کا موبائل، ہر قسم کے کارڈز اور نقدی چھین کر لے گئے۔ لوٹنے والوں نے اور لٹ جانے والے نے نہایت “پُرسکون” طریقے سے ایک دوسرے کے ساتھ مکمل تعاون کی ایک عالیٰ مثال قائم کردی۔
پورے شہر میں کئی برسوں سے ایسے ہی مظاہرے دیکھنے میں آ رہے ہیں۔ قزاق آتے ہیں، لوگوں پر ایسا سحر کرتے ہیں کہ جسم کے تمام اعضا ڈھیلے پڑ جاتے ہیں، چپ چاپ جو کچھ ہوتا ہے حوالے کر دیا جاتا ہے اور لیجانے والے بھی نہایت سکوں کے ساتھ واپسی کا راستہ اختیار کرلیتے ہیں۔
بات وہیں بگڑتی ہے جہاں کسی زور آور کے مقابلے میں کوئی مداخلت کرے۔ پولیس روکے اور آپ چائے پانی کی گنجائش نہ نکالیں، پبلک ڈیلنگ محکموں میں بیٹھے لوگوں کی داڑھیاں تو دیکھیں ان کے پیٹ دکھائی نہ دیں، قانون نافذ کرنے والے ٹینکوں سے یورپ و امریکا کے جدید ترین چاکلیٹیں اور کیک بر آمد کرنے کے دعوے کریں اور آپ انکار پر کمر بستہ رہیں یا ڈاکوؤں کی راہیں مسدود کرنے کی کوشش کریں تو “ٹھوں ٹھاں” تو ہوگی۔ لہٰذا پورے شہر کو پُر امن رکھنے کیلئے ہر شہری نے یہ طے کر لیا ہے کہ ان معاملات میں دو طرفہ تعاون نہایت ضروی ہے۔ آہ نہیں واہ میرا پُر امن شہر کراچی زندہ باد۔