” تم ہار جاؤ گے۔۔ میں تمہیں ہرا دوں گا. “
میں ٹھٹکی۔ ۔ باورچی خانے کی طرف بڑھتے ہوئے میرے قدم منان کے کمرے کے سامنے تھم گئے۔ بڑی رازداری سے میں نے اس کے کمرے میں جھانکا۔ وہ بستر ایک کونے پر بیٹھا ہوا تھا۔۔ یوں کہ میری جانب، اسکی پشت تھی۔۔ دوسرے کونے پر ریان سو رہا تھا۔۔ میں نے گھڑی کو دیکھا جو کہ 3:30 بجا رہی تھی اور پھر کھڑکی سے جھانکتے ہوئے فلک کو جو تاریک مگر پر نور تھا۔ جانے آج آسمان اتنا خوش کیوں نظر آ رہا تھا اور پھر یکدم مجھے یاد آیا کہ مجھے تو سحری بنانے کے لیے باورچی خانے میں جانا تھا۔
” پتا نہیں یہ منان کس سے باتیں کر رہا ہے”میں بڑبڑائی اسے اس وقت جاگتا دیکھ کر میں اس لئے حیران نہ ہوئی کیونکہ وہ عام دنوں میں بھی اپنی اسکول کی پڑھائی کی غرض سے اس وقت تک اٹھ جایا کرتا تھا۔
” مجھے پتا ہے کہ آج کی رات تم نے بہت اذیت میں گزاری ہوگی اور اگلے تیس دن اور انتیس راتیں تم اسی کرب میں گزارو گے۔ “
مجھے اصل حیرت اس وقت ہوئی جب باورچی خانے میں لسی بنانے کے لئے دودھ نکالتے ہوئے بھی منان کی آواز میری سماعت سے ٹکڑائی۔ حالانکہ وہ اپنے کمرے میں ہی تھا۔ غالباً ایسا، کمرے کا دروازہ کھلا ہونے اور خاموشی کی وجہ سے، ہو رہا تھا کہ میں منان کو واضح طور پر سن پا رہی تھی۔ پھر، اس کا کمرہ باورچی خانے کے بالکل برابر میں ہی تو تھا۔ میں نے اپنی حیران سوچوں کو جھٹکتے ہوئے روٹی بنانے کے لئے آٹا نکالا اور لسی بنانے کا ارادہ ملتوی کر دیا تاکہ جوسر مشین کی آواز میری سماعت کو متاثر نہ کرے اور پھر سے منان کی باتوں کی طرف کان دھر دیئے۔
” اور پتا ہے میرا دل چاہتا ہے کہ میں کم از کم ایک دفعہ تم کو اس اذیت میں دیکھوں جیل کی سلاخوں کے پیچھے کھڑے ہو کر چیخیں تو مارتے ہوگے تم تمہارے لیے یہ چند دن کتنے سخت ہوتے ہوں گے۔ لیکن پتا ہے ہمارے لئے یہ بہت اہم ہوتے ہیں۔ بہت خاص ہوتے ہیں۔ ان دنوں میں اللہ تعالیٰ نے نیکیوں کی سیل لگائی ہوئی ہوتی ہے۔ جس میں سات سو گنا ڈسکاؤنٹ ہوتا ہے۔ ویسے تم اس وقت کو یاد کر کے پچھتاتے تو ہوگے جب تم نے ہم سب کے محترم حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے سے انکار کیا تھا۔ لیکن خیر، جو ہوا سو ہوا مگر اس رمضان میں تمہیں شکست دے کر رہوں گا۔ تم ہار جاؤ گے۔ میں تمہیں ہرا دوں گا۔ “
مجھے اب سمجھ آئی تھی کہ وہ شیطان سے بات کر رہا تھا۔ اس کا انداز ایسا تھا جیسے شیطان اس کے سامنے بیٹھا اسے سن رہا ہو۔ مجھے حیرت ہوئی۔ وہ کہہ رہا تھا کہ” میرے پچھلے رمضان بہت برے گزرے تھے۔ ایک مسلمان کی حیثیت سے۔ کیونکہ میں اس میں اپنی بخشش نہیں کروا سکا تھا۔ جیسا کہ ہمارے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ہلاک ہوا وہ شخص جس نے رمضان کا مہینہ پایا مگر اپنی بخشش نہ کرواسکا۔
لیکن میں نے سوچ لیا ہے کہ اس سال ضرور اپنی بخشش کرواؤں گا۔ مجھے ہلاک ہونے والوں میں شامل نہیں ہونا۔ تم قید ہو ناں تو اس کا بھر پور فائدہ اٹھاؤں گا اور اپنے نفس کو بھی ایسے دباؤں گا کہ کم از کم وہ اس مہینے مجھے نہیں ستائے گا اور ہمیشہ یاد رکھے گا کہ منان اللہ کا سپاہی ہے۔
سنو! میں نے سوچا ہے کہ اس ماہ تمام نمازیں مسجد میں وقت پر ادا کروں گا۔ وہ رہا میرا ٹائم ٹیبل۔ اس میں لکھا ہے کہ میں پچھلے سال ساری رات جاگ کر کبھی موبائل دیکھنے میں وقت گزار دیتا تو کبھی کوئی ناول پڑھنے میں اور پھر فجر کے بعد سوتا تو تب اٹھتا جب نماز ظہر قضاء ہو چکی ہوتی تھی۔ لیکن اب مجھے شعور آگیا ہے تو اس سال میں رات کو جلدی سوؤں گا، پھر تہجد کے وقت اٹھ کر نوافل اور قرآن پاک پڑھوں گا۔ روزانہ سحری اور افطاری بنانے میں امی کی بھی مدد کراؤں گا۔”میں ٹھٹکی۔ میرا بیٹا۔ میرے لبوں پر فخریہ مسکراہٹ بکھر گئی۔
” پھر اسکول سے واپس آکر قیلولہ کروں گا اور روزہ کے دوران سونے کے بجائے، عبادت کروں گا۔ عصر سے مغرب کے دوران اپنے دوستوں کے ساتھ کھیلنے کے بجائے ان کے ساتھ کوئی حدیث ڈسکس کروں گا۔ ایک اور چیز یہ کہ تراویح آٹھ رکعت نہیں پڑھوں گا بلکہ پوری بیس رکعت مسجد میں بابا کے ساتھ ادا کرنے کی کوشش کروں گا کیونکہ ممکن ہے کہ یہ میری زندگی کا آخری رمضان ہو۔ تو سنو شیطان! تم ہار جاؤ گے۔ میں تمہیں ہرا دوں گا۔ اگر اللہ نے چاہا تو۔”
میں نے جوسر مشین کا بٹن دبایا تو منان کی آواز پس منظر میں چلی گئی اور میں سوچنے لگی کہ میری جگہ اگر کوئی اور منان کو سنتا تو نفسیاتی سمجھتا مگر میں جانتی ہوں کہ وہ نفسیاتی نہیں تھا بلکہ اپنے آپ کو مطمئن کر رہا تھا۔ اپنے آپ کو یقین دلا رہا تھا کہ ماہ رمضان میں نیکی کرنا آسان اور برائی کرنا مشکل ہوتا ہے اور ہر مومن خود کو اسی طرح رمضان کی آمد سے قبل تیار کرتا ہے۔ یہ وہ مہینہ ہے جس میں ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے نفس کے اندر کتنا شیطان ہے۔ بس جو مسلمان اپنے نفس کے اندر چھپے ہوئے شیطان کو شکست دینا چاہتا ہے وہ اس مہینے کی بھرپور پلاننگ کرے گا تاکہ اپنے رب کی جنتوں میں داخل ہو سکے۔
میں نے لسی کو گلاس میں ڈالتے ہوئے سر اٹھایا تو منان پر نظر پڑی جو مجھ سے اپنے بابا کو سحری کے لئے جگانے کی اجازت مانگ رہا تھا۔ یقیناً اس وقت شیطان خود کو شکست خوردہ محسوس کر رہا ہوگا۔ آخر وہ اللہ کا دشمن ہے۔