شیطان نے زنا تو نہیں کیا تھا،شراب تو نہیں پی تھی ڈاکہ تو نہیں ڈالا تھا چوری تو نہیں کی تھی ،ایک مسیحابن کر ڈاکٹر کے روپ میں انسانوں کے اعضاء تو فروخت تو نہیں کیے تھے ،سیاست دان بن کر عوام کی خدمت کا نعرہ لگا کر عوام کا خون تو نہیں پیا تھا ،ناپ تول میں کمی تو نہیں کی تھی ،اشیاء خودرنوش میں ملاوٹ تو نہیں کی تھی ،مولوی بن کر شریعت کا کاروبار تو نہیں کیا تھا ، خاوند کو باندھ کر اسکے سامنے اسکی بیوی کی ساتھ گینگ ریپ تو نہیں کیا تھا ،سگا باپ ،بھائی ہوکر اپنی ہی سگی بیٹی ،بہن کو جنسی حیوانیت کا نشانہ تو نہیں بنایا تھا ،ہم جنس پرستی تو نہیں کی تھی ،لوگوں کو کتے ،گدھوں ،چوہوں اور پتا نہیں کون کون سے حرام جانوروں کا گوشت تو نہیں کھلایا تھا ،قاضی بن کر پیسوں کی ہوس میں مجرموں کا ساتھ تو نہیں دیا تھا ،اللہ تعالیٰ کی شان میں کوئی گستاخی تو نہیں کی تھی ،بس صرف ایک کام کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے انکار کرتے ہوئے حضرت آدم ؑ کو سجدہ نہیں کیا تھااور اس کی پاداش میں ذلیل ورسوا ہوکر عرش بریں سے اسے نکلنا پڑا ۔
پہلی قوموں کی تباہی کسی ایک گناہ کی وجہ سے ہوئی اور اس ساری قوموں کے گناہ ہم میں پائے جاتے ہیں اس کے باوجود بھی ہم سمجھتے ہیں کہ ہم بے قصور اور بے گناہ لوگ ہیں ۔یقین کیجئے وہ تو رب تعالیٰ کا اپنے محبوب سے کیا ہوا وعدہ ہے کہ وہ حضرت محمدؐ کی امت پر مجموعی عذاب نازل نہیں کرے گا ورنہ آج ہماری داستان تک نہ ہوتی داستانوں میں ۔
رمضان المبارک کا پہلا عشرہ گزر چکا ہے یقین کیجئے کہ ساٹھ روپے کلو بکنے والا خربوزہ سو روپے کلو ساٹھ روپے درجن والا کیلا ایک سو بیس درجن اور اسی روپے کلو والا سیب ایک سو پچاس روپے کلو آٹا ،چینی نایاب ۔یہودی،نصرانی ،ہندو ،سکھ اپنے مذہبی تہواروں پر اشیا سستی کردیتے ہیں اور ہم مسلمان بیس روپے کلو والا ٹماٹر ساٹھ روپے کلو کرکے کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے عذاب پتا نہیں کیوں آتے ہیں؟
ایک حضرت نے ذخیرہ اندوزی کرکے لاکھوں روپے کمایا پھر انہی پیسوں سے عمرہ وحج کیا ،حاجی صاحب بنے ایک عالی شان گھر بنوایا اور گھر کے باہر موٹے حروف میں لکھوایا ’’ہذامن فضل ربی‘‘چند عالی شان افطار پارٹیاںدیں بلیک منی کو وائٹ کیا اور بن گئے ایک معزز بزنس مین ۔یقین کریں شیطان بھی کبھی کبھی یہ سوچتا ہوگا کہ اتنے گناہ تو اس نے بھی نہیں کیے ہیں جس قدر آج اس پر تھوپے جارہے ہیں ۔
سچ تو یہ ہیں کہ شیطان تو ویسے ہی بدنام ہو رہا ہے وہ کونسا گناہ ہے جو ہم نہیں کرتے ،شیطان نے تو صرف ایک کام سے انکار کیا تھا ہم تو آج اللہ تعالیٰ کی ذات سے ہی منکر ہوچکے ہیں اس نے ایک سجدہ نہیں کیا تھا تو قیامت تک رسواء ہوگیا اور ہم سالوں سے سجدہ نہیں کررہے ہیں اور اکڑتے ہیں کہ رب ہمارا کیا کرلے گا ۔
ہائے افسوس کہ ہم کب سمجھیں گے کہ روز ہماری زندگی سے ایک ایک دن کم ہورہا ہے اب بھی وقت ہے کہ رب کریم سے رجوع کرلیں کیونکہ نجات اسی میں ہے ورنہ تباہی وبربادی تو ہمارا مقدر ہے ہی ہے ۔ ’’کرونا‘‘نے دنیا میں تباہی مچادی ہے اللہ تعالیٰ ہم سب پر اپنا خاص کرم اور رحم فرمائے آمین ۔
اس سے بچائو کا واحد اور کامیاب حل استغفار اور معافی ہے ۔ایک مرتبہ قوم بنی اسرائیل پر بارش نہیں ہورہی تھی قحط پڑچکا تھا قوم حضرت موسی ؑ کے پاس آئی کہ وہ اللہ تعالیٰ سے رابطہ کریں کہ بارش کیوں نہیں ہورہی ہے تو حضرت موسی ؑ اپنی قوم کو ساتھ لیکر ایک میدان میں آئے اور رب تعالیٰ سے بارش کی دعا کی تو آواز الٰہی آئی کہ ’’موسی ؑ ‘‘تمہاری قوم میں سے ایک شخص گناہ گارہے جس کی وجہ سے بارش نہیں ہورہی تو موسی ؑ نے جب یہ بات اپنی قوم سے کی تو ہر انسان کو اپنے اعمال کا علم ہوتا ہے ،گناہ گار انسان نے دل ہی دل میں رب تعالیٰ سے معافی مانگتے ہوئے عرض کی کہ رب کریم مجھے سب کے سامنے رسوا مت کرایک دم سے بارش شروع ہوگئی ۔موسی ؑ نے رب تعالیٰ سے عرض کی کہ رب کریم آپ نے ابھی تو کہا تھا کہ میری قوم میں گناہ گار انسان کی وجہ سے بارش نہیں ہورہی تھی اور ابھی ایک دم بارش کا ہونا،رب کریم نے فرمایا اے میرے موسی ؑ نبی اس شخص نے مجھ سے صلح کر لی ہے جب موسی ؑ نے اس شخص کا نام دریافت کرنا کرنا چاہا تو رب کریم نے فرمایا اے میرے پیغمبر موسی ؑ میں رب اپنے بندوں کے عیبوں کو ظاہرنہیں کرتا ،جو مجھ سے معافی مانگ لیتا ہے وہ میرا ہوجاتا ہے ۔
آج دنیا کی تمام میڈیکل سائنس فیل ہوچکی ہے ۔بھارت کی ایک ویڈیو آجکل سوشل میڈیا پر گردش کرہی ہے کہ جس میں ایک پولیس والا مسلمانوں سے اپیل کررہا ہے کہ وہ رمضان المبارک میں افطاری کے وقت اور تراویح کے وقت اس وبا ء کے خاتمے کے لیے دعا کریں۔ فتح مکہ کے بعد جب دشمنان اسلام کی قوتیں ٹوٹ گئیں اور مکہ اور اطراف مکہ کے قبائل جوق درجوق اسلام کے دائرہ میں داخل ہونے لگے تووہ معاندین اسلام جن کی رعونت اور سرکشی اب بھی نہ گئی تھی ،مکہ چھوڑ کردوسرے مقاموں پر نکل گئے ،عکرمہ بن ابوجہل بھی انہی میں تھا چنانچہ وہ یمن کے قصد سے بھاگ گیا ،اس کی اہلیہ سعیدہ مشرف بااسلام ہوگئیں اور آنحضرت ﷺ سے شوہر کی جان کی امان لیکر انکی تلاش میں نکلیں ۔
ادھر جب عکرمہ جب یمن جانے کے لیے کشتی میں سوار ہوا تو کشتی ہچکولے کھانے لگی تو عکرمہ نے لات وعزیٰ کا نعرہ لگایا تو دوسرے ساتھیوں نے کہا کہ عکرمہ یہاں لات وعزیٰ کا کام نہیں یہاں صرف محمد ؐ کا رب کام آتا ہے یہ بات عکرمہ کے دل پر کچھ ایسا اثر کرگئی کہ اس نے کہا کہ جب دریا میں محمدؐکا رب کام آتا ہے تو خشکی پربھی وہی ہے ،پھر مجھے حضرت محمدؐ کے پاس لوٹ جانا چاہیے اور اسی طرح دشمن اسلام، رسولؐ کا غلام اور صحابی ؓ بن گیا ۔آج پوری دنیا کی میڈیکل سائنس اور تمام حکماء اس ان دیکھے وائرس کے سامنے ہار ہوچکے ہیں تو وہ ممالک جو انسان کو ہمیشہ زندہ رکھنے کے دعوے کرتے تھے آج بے بس ہوچکے ہیں کیوں نا آج ہم سب بھی حضرت محمد ؐ کے رب کی طرف لوٹ جائیں رجوع الٰہی کرلیں اور اتر سکتے ہیں آسمان سے آج بھی فرشتے ہماری مدد کو ۔