*”اللہ اور اس کے فرشتے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے ہیں۔اے ایمان والو تم بھی اُن پر دُرود بھیجو۔”*(الاحزاب :56)
رحمۃ للعالمین ،محسن انسانیت، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا میں آئے تو اپنے ساتھ بےشمار نعمتیں لے کر آئے۔ رنگ و نسل کے تمام امتیازات کو ختم کردیا ،اخوت و محبت کا درس دیا اور اپنے ایک ایک قول و فعل سے دنیا و آخرت کی بھلائیاں سمیٹنے اور جنت کے حصول اور جہنم سے نجات حاصل کرنے کا طریقہ بتایا۔ غرض کے حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام انسانیت پر اتنے احسانات ہیں کہ اللہ تعالیٰ مومنین کو دُرود بھیجنے کا حکم دیتے ہیں۔
اتنی عظیم ہستی کے اللہ اور اس کے ملائکہ اُن پر دُرود بھیجتے ہیں اور پھر مومنین کو بھی حکم ہوتا ہے کہ تم بھی اُن پر دُرود بھیجو۔دنیا میں کوئی جگہ ایسی نہیں ہے جہاں دِن میں پانچ مرتبہ اذان میں با آوازِ بلند محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا اعلان نہ ہو رہا ہو ، نمازوں میں آپ پر درود نہ بھیجا جا رہا ہو اور کوئی لمحہ ایسا نہیں جب روئے زمین پر کسی نہ کسی جگہ آپ کا ذِکر مبارک نہ ہو رہا ہو۔
اور تمہاری خاطر تمہارے ذکر کا آوازہ بلند کر دیا ۔ (الشرح:4)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : “تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک میں اسے اپنے والد اپنی اولاد اور تمام انسانوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔” (صحیح بخاری)
گویا رسول کی محبت کو ایمان کی شرط ٹھہرایا گیا۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ایمان کا تقاضا ہے۔ایسا عشق اور ایسی محبت کی جائے کے آپ کی ہر ادا محبوب اور طریقہ مطلوب ہو۔ آپ کی محبت میں ہر چیز ،ہر رشتہ قربان کر دیا جائے اور جب ایسی محبت ہو تو انسان اپنے آپ کو اپنے محبوب کی سیرت میں ڈھالنے کی کوشش کرتا ہے اور سیرت بھی وہ کہ جس کی کوئی مثال نہیں۔ سیرتِ طیبہ کے جس پہلو پر بھی نظر ڈالیں اللہ کی اطاعت اور زندگی کو جنت کا نمونہ بنانے کا ہر چھوٹے سے چھوٹا عمل سیکھا دیا جاتا ہے ۔وہ ایسی شخصیت کے نبوت سے پہلے بھی صادق اور امین کا لقب لے لیتے ہیں تو کیوں نہ اُن سے محبت کی جائے۔ ایسا اخلاق کہ قرآن بھی اس بات کا گواہ ہے :
اور بےشک تم اخلاق کے بڑے مرتبے پر ہو ۔ (القلم:4)
اہل ایمان کو رسول اللہ سے محبت کا قرینہ بھی اللہ تعالیٰ خود سکھاتے ہیں۔ارشاد ہوتا ہے:
“اے لوگو جو ایمان لائے ہو اپنی آواز نبی کی آواز سے بلند نہ کرو اور نہ نبی کے ساتھ بلند آواز سے بات کرو جس طرح تم آپس میں کرتے ہو۔کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارا کیا کرایا سب غارت ہوجائے اور تمہیں خبر بھی نہ ہو۔” (الحجرات :2)
یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا تقاضا ہی ہے کہ حدودِ ادب اور حدودِ اطاعت ملحوظِ خاطر رکھی جائیں۔ اُن سے آگے نہ بڑھیں اُن کی اطاعت کریں۔ جس مجلس میں ذِکر ہورہاہے ہو وہاں اونچی آواز سے بات نہ کریں۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ “جو لوگ رسولِ خدا کے حضور بات کرتے ہوئے اپنی آواز پست رکھتے ہیں وہ در حقیقت وہی لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے تقویٰ کے لیے جانچ لیا ہے اُن کے لیے مغفرت اور اجر عظیم ہے ۔” ( الحجرات :3)
اپنے ہر کام میں پہلے یہ دیکھیں کے اس سلسلے میں ہمارے نبی کا مبارک عمل کیسا اور کیا تھا سورہ نساء میں کہا گیا
“نہیں اے محمد تمہارے رب کی قسم یہ کبھی مومن نہیں ہوسکتے جب تک کے اپنے باہمی اختلافات میں یہ تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں۔پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میں بھی تنگی نہ محسوس کریں بلکہ سر بسر تسلیم کریں۔” (النساء :65)
حضور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا تقاضہ ہے کہ ہم اپنے معاملات میں رسول اللہ کو فیصلہ کرنے والا مانیں اور اُن کے فیصلے پر پورے دل کے ساتھ سر تسلیم خم کریں۔
غرض کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے بغیر دین مکمل ہی نہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے دل میں تنگی محسوس ہو تو سمجھ لینا چاہیے کہ محبت کا دعویٰ کمزور ہے۔ رسول اللہ کی محبت ایک بہت بڑا خزانہ ہے ایسا خزانہ جس کے بعد صرف اور صرف جنت ہے۔