آج جنوبی ایشیا میں ہر چہار طرف کرونا کا بول بالا ہے، بھارت کی عدم احتیاطی و لاپرواہی کا فائدہ اٹھا کر یہ خطرناک جرثومہ اپنا خونی پنجہ نصب کرکے ہاہاکار مچانے میں کامیاب ہوگیا ہے۔
نتیجتاً پڑوسی دیس قیامت صغریٰ کا منظر پیش کررہا ہے جسے دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے، نفسا نفسی کا عالم ہے سب کو اپنی فکر پڑی ہے، لوگوں سے اپنوں نے منہ پھیر لیے ہیں حتیٰ کہ خونی رشتے بھی آپس میں میل ملاپ کو تیار نہیں، کون کس حال میں ہے کسی کو کسی سے کوئی غرض نہیں، چتائیں تو اٹھ رہی ہیں لیکن ماتم و بین کرنے والے نظر نہیں آتے، کبھی سوچا نہ تھا کہ رشتہ دار، دوست، ہمسائے میّت کو کاندھا تک دینے سے انکاری ہوجائیں گے۔
ایسے کڑے وقت میں تمام تر اختلافات و نظریات کی تفریق کو پس پشت ڈال کر پاکستانیوں نے اپنے ہمسایوں کے ساتھ نہ صرف ہمدردی و یکجہتی کا مظاہرہ کیا بلکہ ہمہ وقت ہمہ تن خود کو پیش کرنے کا اظہار کیا، سوشل میڈیا کے زریعے ایک غیرمعمولی تعداد نے پیغامات بھیجے کہ لوگوں کی جان بچانے کے لیے وہ اپنے پلازمہ دینے کو تیار ہیں۔
ایدھی فاؤنڈیشن کے سربراہ فیصل ایدھی نے بھارت سرکار کو خط لکھ کر ایمبولینس سروس بمعہ ریسکیو ٹیم کے تعاون کرنے کی اجازت چاہی، ڈاکٹرز و پیرامیڈکس نے رضاکارانہ خدمات دینے کی خواہش کا اظہار کیا اور سیمابندی کی وجہ سے انسانیت کی مدد کرنے سے عاجز رہنے پر ہزاروں افراد نے افسوس و بےچارگی ظاہر کی، ایسے میں حکومت پاکستان بھی کسی سے پیچھے نہ رہی اور مودی انتظامیہ کو ہر ممکن تعاون کی پیشکش کی۔
اہالیان پاکستان کے اس جذبے کو نہ صرف بھارت بلکہ پوری دنیا میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے، اندازہ کریں کہ ہمیشہ نفرت کا اظہار کرنے والی اداکارہ کنگنا رناوت بھی پاکستان کی تعریف و شکریہ پر مجبور ہوگئی اور یہ ان پاکستانیوں کی مرہون منت ہے جنہوں نے وطن عزیز کے لیے بہت کچھ کیا اور بدلے میں کچھ نہ لیا۔
اس کے برعکس ایک مخصوص طبقہ ایسا بھی ہے جنہیں سرزمین پاک نے دولت و شہرت، مقام و مرتبہ، عیش و عشرت ہر شے سے نوازا، اس کے باوجود ان کا منفی کردار ایسا ہے کہ ان کے ہوتے کسی دشمن کی ضرورت نہیں۔
ذرا سوچئے کرونا جیسی وباء کے خلاف جب قومیں اتحاد و حوصلہ مندی سے ڈٹی ہوئی ہیں، چھٹکارے کے لیے تدبیریں کررہی ہیں ایسے میں ہمارے کچھ ناعاقبت اندیش لوگ موقع غنیمت جان کر ملکی دفاع و دفاعی اداروں کے خلاف میٹھا زہر اگل رہے ہیں، کہتے ہیں ریاست نے دفاع پر فضول خرچ کیا صحت و تعلیم پر نہیں کیا اور منظم و مسلسل اسے مہم بنا کر چلایا جارہا ہے۔
سوال یہ ہے کہ آیا یہ زہر افشانی ریاست کو معذور بناکر بھوکے بھیڑیوں کے سامنے ڈالنے کے ایجنڈے کا حصہ ہے یا واقعی اس زبردستی کے دانشوڑ طبقے کو عوام کا درد ہے؟ اگر گزشتہ دو دہائیوں پر سرسری نگاہ ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ 2001 میں امریکی وزیرخارجہ کولن پاول نے جنرل مشرف کو نیوکلئیر ٹیکنالوجی میں مدد کی پیشکش کی جسے جنرل مشرف نے شکریہ کہہ کر مسترد کردیا اور صرف ٹریننگ کے حصول تک قبول کیا۔ آخر کچھ ایسا ضرور تھا جو 2004 میں جنرل ریٹائرڈ مرزا اسلم بیگ یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ کچھ طاقتوں سے پاکستانی ایٹمی اثاثے ہضم نہیں اور ہم کسی صورت ایٹمی اثاثوں پر سمجھوتہ نہیں کرسکتے۔ اس کے بعد مشرف حکومت کے خلاف مصنوعی بحران در بحران، میڈیا مہم اور مختلف تحریکیں چل نکلیں نتیجہ مشرف اقتدار کے سورج غروب کی صورت نکلا۔
2008 میں وال اسٹریٹ جنرل میں ایک آرٹیکل شایع ہوا جس میں تجویز دی گئی کہ مغربی ڈونر پاکستان کو 100 ارب ڈالر کا پیکیج دیکر ایٹمی پروگرام رول بیک کروائیں۔ 2008 میں میثاق جمہوریت کا دور شروع ہوا تو پاکستان انتظامیہ نے ایک طرف تو بلاجواز قرضوں کے انبار لگادئیے جبکہ دوسری طرف دہشت گردی کی ایسی لہر چلی کہ سرزمین پاکستان کا کریہ کریہ بیگناہوں کے خون سے سیراب ہوا۔
اس مہم کا اہم ترین موڑ اس وقت آیا جب 2016 میں امریکی وزیرخارجہ جان کیری نے پاکستان پر ایٹمی اثاثے رول بیک کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جسے پاکستان نے سختی سے مسترد کردیا۔ وہ دن تھا کہ اس کے بعد ملکی سلامتی کے اداروں کے خلاف منظم ترین مہم کا آغاز ہوا، کبھی ڈان لیکس تو کبھی بیرون ممالک میں فوج مخالف مظاہرے، کبھی سیاست میں مداخلت کی چارج شیٹیں تو کبھی صحافت و آزادی اظہار پر پابندی کے الزامات اور یہ زہر افشانی آج بھی جاری ہے۔
کوئی کہتا ہے یورپ کے بہت سے ممالک میں فوج نہیں انہیں تو کسی نے ہڑپ نہیں کیا، کبھی کہا جاتا ہے ملکی بجٹ کا بڑا حصہ دفاع پر خرچا جاتا ہے۔ فرض کریں ان کی خواہش پر عمل کر لیا جائے فوجی و دفاعی طاقت کمزور کردیتے ہیں اور ایٹمی اثاثے رول بیک کرکے 100 یا 200 ارب ڈالر تھام لیتے ہیں۔
کیا اس سے مستقبل محفوظ ہوجائیگا؟ اس کا جواب شاید یوکرائن سے بہتر کوئی نہیں دے سکتا جس کے باسیوں کو نہ دن کا سکون ہے نہ رات کا چین، ہر وقت ایک ہی خطرہ سر پر منڈلاتا رہتا ہے کہ کب روس حملہ کرکے قبضہ کرلے، دفاعی لحاظ سے 1994 تک یوکرائن دنیا کی تیسری بڑی طاقت تھی لیکن ان کے ہاں بھی بہت سے ارسطو تھے جن کی زہن سازی مہم و عالمی طاقتوں کی میٹھی باتوں میں آکر یوکرائن نے بداپسٹ میمورنڈم کے تحت دسمبر 1994 میں امریکہ، روس اور برطانیہ سے اپنے ایٹمی اثاثوں سے دستبرداری کا معاہدہ کرلیا بدلے میں معاشی مدد اور سیکیورٹی ضمانت حاصل کی۔
لیکن 2014 میں روس نے کریمیا کی روسی حمایتی آبادی کو جواز بناکر کریمیا پر چڑہائی کردی اور کچھ حصے پر قبضہ کرلیا، ایک بار پھر یوکرائن پر خوف کے بادل منڈلارہے ہیں اور آج وہ اپنی غلطی پر افسردہ ہیں۔ اگر ان چند ناعاقبت اندیش لوگوں کی خواہش و زہرافشانی کا شکار ہوکر ہم فوج کو کمزور کردیتے ہیں تو نتیجہ کیا نکلے گا؟
ذرا سوچئے! ایک طرف ازلی دشمن بھارت جو متعدد بار جارحیت کرچکا اور آج بھی اس کا جنگی جنون و بھارت ماتا بنانے کا راگ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، دوسری طرف افغانستان جس نے پاکستان کے وجود کو تسلیم نہ کیا بلکہ اقوام متحدہ کی ممبرشپ میں بھی مداخلت کی اس کے علاوہ اندرون خانہ غیرملکی لےپالک بچے ہمارا کیا حشر کرینگے؟ کیا ہم بھی لیبیا کی طرح مغرب کا اچھا بچہ بن جائیں جو کسی بھی وقت مسل دئیے جائیں؟ یہ راز ہر خاص و عام پر آشکار ہے کہ پاکستان کے پیچھے رہ جانے کی اصل وجہ مضبوط دفاع و مضبوط فوج نہیں بلکہ کرپشن، لاقانونیت اور عدم انصاف ہے لیکن تُف ہے اس مخصوص طبقے پر جو کبھی بھولے سے بھی انکے حلق سے کرپشن، لاقانونیت و عدم انصاف کے خلاف آواز بھی نکلی ہو۔ لہٰذا وقت کا تقاضا یہی ہے کہ ہمیں من حیث القوم اپنے پرائے، کھرے کھوٹے، دوست دشمن کی پہچان کرکے ان کے راستے روکنے ہونگے تب کہیں جاکر
“یہ چمن معمور ہوگا نغمۂ توحید سے“