بہت آسان لگتا ہے کہ “کم خرچ پکوان”کیسے ہوں ؟ ہر ماں ، بیوی بیٹی کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ اس کے گھر کے مرد حضرات کو اچھا کھانا ملے وہ پیٹ بھر کر کھائیں اور خوش ہوں ۔ اسی چکر میں وہ ہمیشہ سرگرداں رہتی ہیں اچھی اور مہذب خواتین اس بات کو ہی اہمیت دیتی ہیں کہ ان کے بچوں خصوصاً لڑکوں اور آدمیوں کو ان کی پسند کا کھا نا مل جائے ۔
جن کے پاس وسا ئل کی کمی نہیں وہ تو ماشاء اللہ یہ کام آسانی سے کر لیتی ہیں مگر وسائل کی تنگی مسائل کی بہتات ہو جاتی ہے، محدود آمدنی بڑا کنبہ ہر کسی کا خیال رکھنا اتنی بڑی ذمہ داری ہے جس کا تصور کر نا بہت مشکل ہے ۔
ہمیں یاد ہے ہمارے بچپن میں سارے اہل خانہ ایک ہی دسترخوان پر ایک ہی وقت میں یکساں کھانا کھاتے تھے۔ “ماش کی دال” ہے تو سب کیلئے وہی چیز ہے ۔ بھنڈی ہے تو سب ہی بھنڈی کھا رہے ہیں ۔ دال چاول ہیں تو سب ہی دال چاول کھا رہے ہیں ۔ نہاری، مرغی، بریانی تو کبھی کبھار ہی بنتی تھیں ۔ مہمانوں کے آنے پر یا کسی تہوار پر تو گویا عید ہی ہوجاتی تھی ایک ٹکڑا آلو اور ایک بوٹی پر خوش تھے کوئی لالچ نہ دوسری چیز کی طلب ۔
خواہش کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ آج ماحول بدلتے بدلتے بگڑتا ہی چلا جا رہا ہے ۔ دوسروں کے احساس کی کمیوں نے یہ دن دکھائے ہیں ورنہ تو ہر کسی نے اعلیٰ سے اعلیٰ کھانے کھائے ہیں۔ آج کل میڈیا بھی اس قدر بے حس ہوا ہے کہ پکوان بھی اتنے مہنگے دکھاتا ہے اور اشتہارات بھی اتنے مرغن اور تکرار سے دکھاتا ہے کہ ہر بندہ للچاتا ہے اور وہی کچھ کھانا چاہتا ہے ایسے میں “کم خرچ پکوان”بالکل بے جان ہو جاتے ہیں۔
کھانا تو دور کی بات وہ نام تک سننا نہیں چاہتے! ورنہ دیکھا جائے تو یہی کم خرچ پکوان ہم اور آپ کیلئے زیادہ جسمانی لحاظ سے فائدہ مند ہیں ۔ رمضان میں تو خاص کر کم کھانا ، کم سونا اور کم بولنا صحت مندی کا ضامن ہوتا ہے جسے ہم الٹ کر دیتے ہیں ۔ ہلکی غذا، دودھ، دہی ، چپاتی ، کھچڑی ہلکی مکس سبزی ، دالیں ، مناسب سے پھل اگر ہم مناسب مقدار میں استعمال کریں ہفتے میں ایک یا بہت زیادہ ہوا تو دوبار گوشت استعمال کریں وہ بھی سبزی ملا کر یا دالیں ملا کر تو ٹھیک ہے ، مرغی اور مچھلی بھی ہفتہ پندرہ دن میں ایک مرتبہ استعمال کی جائیں تو صحت بھی ٹھیک رہتی ہے وزن نہیں بڑھتا جسم پھرتیلا رہتا ہے بے چینی نہیں ہوتی آدمی خود ہلکا پھلکا محسوس کرتا ہے ۔
اگر ہم مرغن غذا وافر مقدار میں گوشت مرغی ، مچھلی تیل گھی چکنائی تلی ہوئی چیزیں مسلسل استعمال کریں تو یہ رفتہ رفتہ ہم زبان کے چٹورے اور جسم و جان کے کورے ہوجا تے ہیں ہر وقت سست اور کاہل رہتے ہیں کام کاج سے جی چراتے ہیں کیونکہ ایسے کھانوں کے بعد ٹھنڈے مشروبات خاص طور پر کولڈ ڈرنکس پی کر اور سونے پر سہاگہ کر جاتے ہیں ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ جیب اس کی اجازت نہیں دیتی دوسرا صحت کے معاملے میں یہ لاپرواہی مزید بربادی لاتی ہے ۔
آج کے دور میں جب نوکریوں کے لالے پڑے ہوئے ہیں آمدنی کے ذرائع کتنے کم ہیں ، مہنگائی کتنی زیادہ ہے؟ ایسے میں “کم خرچ پکوان” ہی بچائے ہماری جان ، شروع سے بچوں کو عادی کرنے کیلئے ماں باپ کو قربانی دینی ہوگی اور واقعتا کم خرچ پکوان آئلی فری کھانے ، چھولے ، چنے ، دالیں ، سالن وہ بھی زیادہ سبزی اور شوربے والے سالن، پھلکوں یا چپاتیوں کے ساتھ کھانے کی عادت ڈلوائیں خود کھائیں کچی سبزیاں گاجر مولی ، سلاد، ککڑی ، کھیرا وغیرہ پالک چقندر، لوکی، ٹنڈا ، شلغم ہر چیز خود کھائیں بچوں کو کھلائیں بچے بھی وہی چیزیںکھائیں گے جو ہم کھائیں گے ان کو نمونہ دینگے چاول بھی ہمیشہ ابلے ہوئے استعمال کریں جو کم خرچ اور بالا نشین ہوں تو بچے اس کے عادی ہوتے ہیں ۔
صبح کے ناشتے میں آج بھی بالائی ، دودھ ، دہی ، دلیہ ، جو کا دلیہ ، لسی، جوس ، ابلا انڈا سر فہرست ہے بنسبت ڈبل روٹی ، مکھن ، جام ، پراٹھے، روغنی مال پوڑے، نہاری پائے ، پوریاں ، کچوریاں حلوے مانڈے کبھی کبھار تو صحیح ورنہ بہت نقصان دہ ہیں ۔ مرغن کھانوں کی لالچ ایک بیماری لاعلاج ہے بندہ شکر گزار نہیں رہتا اور قناعت آکر نہیں دیتی لیکن عادتاً ایسا ہی کیا جائے تو سراسر نقصان ہے مگر کتنا نادان ہے وہ انسان جو صرف زبان کے چٹخارے سے اپنی صحت کو دائو پر لگاتا ہے اور اپنی فیملی کو بڑے سانچے میں ڈھالتا ہے جبکہ ایک با شعور بندہ کم خرچ پکوان کو نعمت قرار دیتا ہے خود بھی فٹ رہتا ہے عورت بھی مطمئن رہتی ہے کیونکہ کم خرچ پکوان پر سب مطمئین اور خوش رہتے ہیں نا شکری نہیں کرتے مذاق نہیں اڑاتے ، چاک و چوبند اور پھرتیلے رہتے ہوئے نعمتوں کا شکر ادا کرتے ہیں ۔ مہنگائی اور تنگی کا رونا نہیں روتے ۔
آپ خود دیکھیں کسی کی لاکھوں کی تنخواہ بھی فیملی کیلئے ناکافی اور پریشان کن ہے تو کوئی ہزاروں بلکہ سینکٹروں میں بھی سکھ چین سے رہ رہا ہے۔ میڈیا کو بھی چاہئے کہ ایسے پکوان دکھائے ایسے اشتہارات دکھائے جو کم خرچ ہوں اور صحت کیلئے بھی اچھے ہوں جلدی بن جائیں تا کہ وسائل جتنے بھی ہوں مسائل نہ بنیں بلکہ خوشحالی اور فرحت کا باعث ہوں نہ کہ خوش خوراکی میں بندہ نہ صرف اپنی صحت متاثر کر ے بلکہ مزید لالچی اور معاشرے کے لئے بوجھ بنا رہے ۔ سیدھا سادہ کھانے والے ہر جگہ معزز رہتے ہیں ہر کوئی انہیں بلا کر خوش ہوتا ہے ۔ میزبان خوش رہتا ہے جبکہ اس کے برخلاف لوگ مہمان نوازی سے گھبراتے ہیں کہ مہنگے کھانے نہ صرف مسائل پیدا کرتے ہیں بلکہ رشتوں میں نفرتیں ڈالتے ہیں ۔
لوگوں کو ایسی منہ کی لگی ہوتی ہے کہ میکے یا سسرال میں کسی کی عزت سے مطلب نہیں رکھتے بلکہ کھانے سے مطلب رکھتے ہیں ۔ بعض داماد حضرات اتنے اچھے ہوتے ہیں کہ ہر طرح کے حالات کو احسن طریقے سے برداشت کرتے ہیں جو رکھ دیا کھا لیا ۔ شکر ادا کیا اور قدر دانی کی تو دوسروں کے بھی دل کھل جاتے ہیں ۔ ایسا صرف وہی لوگ کرتے ہیں جنکو نعمتوں کی صحیح معنی میں قدر ہوتی ہے محنتوں کی قدر کرنا جانتے ہیں سستے اور کم خرچ پکوان پر واقعتا خوش ہوتے ہیں تو اللہ کی ذات بھی ان کی قدر دانی کرتی ہے اور انہیں اطمینان اور سکون کی دولت سے مالا مال کر دیتی ہے ورنہ لوگوں کے شکوے شکایات کبھی بند نہیں ہوسکتے ۔
اس لئے آج کے دور میں کم خرچ اور سستے پکوان کی اہمیت جتنی زیادہ ہے اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے ۔ میری نانی صرف تین کھجور اور چائے پی کر روزہ رکھ لیتی تھیں ۔ میں نے اپنی پھوپھی کو صرف ایک ابلا ہوا انڈا اور دودھ پی کر روزہ رکھتے دیکھا ، میرے جیٹھ رات کھانے میں صرف ایک پیالی دودھ کبھی کبھار پی لیتے تھے ۔ کھانا اگر نہ کھا نا ہو تو بھی سب فٹ فاٹ تھے ۔ آج ہم کیوں دس طرح کے پکوان کے ساتھ پریشان ہیں ؟ وافر مقدار میں گوشت کھانے سے ہی کینسر اور دیگر بیماریاں ہوتی ہیں تو بہتر ہے کہ سادی اور کم خرچ غذائیں اور کم خرچ پکوان کو رواج دیکر لوگوں کو صحت مند رکھا جا ئے ۔ اچھی عورتیں غذا اور غذائیت کا خیال رکھتے ہوئے کم خرچ کھانا پکا کر زیادہ کامیاب رہتی ہیں ۔ یہ بھی ایک فن نہیں بلکہ بہت بڑا فن ہے کہ اس طرح اپنائیت اور محنت سے پکاتی کھلاتی ہیں کہ لوگ بڑی جگہوں پر اور ریسٹورینٹس میں بھی انکے دال چاول کی تعریف کئے بغیر نہیں رہتے اور ہمیشہ یاد رکھتے ہیں ۔ قابل تعریف ہیں ہمارے والدین اور رشتہ دار جنہوں نے ہمیں ایسے نمونے دیئے جن پر عمل کرکے آج بھی ہم خوش ہیں ۔ سبحان اللہ