کسی بھی خو بصورت سماج کی تشکیل اخلاص، جذبات کی پاکیزگی اور سماج کے ہر فرد کے حقوق و ضروریات کی تکمیل سے ہوتی ہے۔اس اعتبار سے ہر سچے پکے مسلمان کی زندگی کا ایک مشن ہے چنانچہ جہاں وہ سماج کے لوگوں کو اسلام کی خوبیوں اور تعلیمات سے روشناس کراتا ہے وہیں جب وہ اپنے غیر مسلم بھائیوں سے ملتا ہے تو اسلامی اقدار وا خلاق کا نمونہ ہوتا ہے اور اس کا یہ طرزِ عمل محض اللہ رب العزت کی خوشنودی اور آخرت میں کامیابی کے لئے ہوتا ہے۔
ایک مثالی مسلمان کی زندگی مینارہ نور کی طرح ہے کہ وہ اپنے قول و عمل سے اپنے سماج میں مثبت تبدیلی کی روشنی پھیلاتا ہے۔ اس طرح کی خوشبو بھری زندگی کے حصول کے لئے مسلمان نبی اکرم ؐ کو اپنا نمونہ بناتا ہے کیونکہ آپ ؐ کی ذاتِ مبارکہ دوسروں کے ساتھ معاملات کے باب میں اخلاق کے اعلیٰ معیار پر تھی اور آپؐ نے اپنی امت کو اسی روش کو اپنانے کی تعلیم بھی دی ہے۔ نبی اکرم ؐ کا ارشادِ گرامی ہے۔’’روزِ جزا ایک مسلمان کے پلڑے کی کوئی بھی چیز دوسروں کے ساتھ بہتر معاملہ (اچھے اخلاق)سے زیادہ وزنی نہیں ہوگی۔‘‘(ترمذی) مذکورہ حدیث کے ضمن میں یہ بات سمجھنے کی ہے کہ اچھا اخلاق صرف یہ نہیں ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان سے مسکرا کر ملے اور سنجیدہ اور نرم لہجے میں بات کرے بلکہ زندگی کے تمام معاملات میں چاہے اس کا تعلق کسی بھی شعبے سے ہو اچھا برتائو اخلاقیات میں شامل ہے۔
خوبصورت سماج کی تشکیل کے لئے شریعت ِ اسلامیہ میں اخلاقی پہلو سے ہمارے لئے کیا ہدایات ہیں۔ اس حوالے سے سب سے پہلی بات یہ ہے کہ ہمیں ایک دوسرے کا خیر خواہ بننا چاہئے اس تعلق سے جو سب سے اہم کام ہمیں کرنا چاہئے وہ یہ ہے کہ ہم دینی و دنیاوی فائدے کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک دوسرے کو مخلصانہ مشورے دیں۔یہ صرف کسی اچھے کام کے لئے تعاون ہی نہیںبلکہ شرعی اعتبار سے اہم ذمہ داری بھی ہے۔نبی کریم ؐکا ارشاد گرامی ہے ’’مذہب(کی روح مخلصانہ) مشورہ پیش کرنا ہے۔‘‘(مسلم)مشورہ لینا دینا دو طریقوں سے ہوسکتا ہے۔
(۱)مشورہ طلب کرنے پر مشورہ دینا(۲)ہمارے سامنے کوئی کسی کام کو انجام دینے جارہا ہو،اور ہمیں یقینی طور پر محسوس ہورہا ہو کہ یہ صحیح یا مناسب راستہ نہیں ہے تو ہمیں اللہ کے لئے مخلصانہ طور پر مشورہ دے دینا چاہئے۔بہرصورت مشورہ میں خیر ہے اس وجہ سے ہمیں اپنا ہر کام مشورے کی بنیاد پر ہی کرنا چاہئے۔ بلا شبہ جب کسی سماج میں اخلاص کی بنیاد پر مشورہ لینے اور دینے کا چلن ہوگا تو وہاں خطا کا امکان کم ہوگا اور جب خطا کا امکان کم ہو گا توصحتمند اور خوبصورت سماج کی تشکیل آسان ہوجائے گی۔
خوبصورت اور صحت مند سماج کی تشکیل کے لئے ایک اور اہم نقطہ جس پر ہمیں اپنی توجہ مرکوز کرنی چاہئے وہ ہے معاملات کی صفائی، یہ وہ نقطہ ہے جس پر ہماری مکمل توجہ نہ ہونے کی وجہ سے سماجی تانے بانے بکھرے نظر آتے ہیں اور ہم مجموعی طور پر ترقی کے راستے میں بہت پیچھے رہ جاتے ہیں۔اخلاقیات کی بنیاد پر ہمیں اپنے معاملات کی صفائی کے لئے سب سے پہلا کام یہ کرنا چاہئے کہ ہم اپنے قول و عمل میں یکسانیت پیدا کر لیں؛اس عمل کا فائدہ یہ ہوگا کہ جس سے بھی ہمارا معاملہ ہوگا وہ ہماری طرف سے دھوکے کا شکار نہیں ہوگا اور ہم نبی اکرم ؐ کے فرمان کی روشنی میں ایک قبیح عمل سے بھی بچ جائیں گے۔ نبی اکرم ؐ کا ارشاد گرامی ہے’’جو دھوکہ دیتا ہے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔‘‘(مسلم) جب معاملات کی صفائی کی بات ہوتی ہے تو ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اس میںایفائے عہد اور منافقانہ چال سے بچنا بھی شامل ہے۔
اسی طرح کسی بھی سماج کو مثالی بنانے کے لئے یہ ضروری ہے کہ اس کے افراد کو لا یعنی اور بیکار کی باتوں میں الجھنے سے بچایا جائے۔آج کے زمانے میں اس کی واضح مثال ملٹی میڈیا موبائل کا بیجا استعمال ہے ہم میں سے ہر ذی عقل اس بات سے واقف ہے کہ اِس لایعنی چیز یعنی موبائل کے غلط استعمال نے منجملہ پورے سماج کو اور بطور خاص نوجوان نسل کو تنزلی اور بے حیائی کے کس مقام پر پہنچا دیا ہے۔اِس حوالے سے اگر نبی اکرم ؐ کی تعلیم ہماری نظروں میں ہوتی اور اس کے مطابق ہمارا عمل ہوتا تو ہمارا معاشرہ پستی کی گہرائیوں میں نہ گرتا۔ حدیث مبارکہ میں غور فرمائیے کہ کس خوبصورتی سے لا یعنی چیزوں سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے۔
نبی اکرمؐ کا ارشاد ہے’’ایک اچھا مسلمان ہونے کی علامت یہ ہے کہ وہ لایعنی چیزوں سے بچتا ہے۔‘‘(ترمذی)ہمیں یہ ضرور یاد رکھنا چاہئے کہ اخلاقیات پر مبنی اچھے سماج کی تشکیل کے لئے سماج کے افراد کا باحیا ہونا بھی ناگزیر ہے کیونکہ ہم کسی ایسے سماج کو مثالی قرار نہیں دے سکتے جہاں بے حیائی عام ہو۔
جب ہم بے حیائی کی بات کرتے ہیں تو ذہن میں یہ بات بھی رہنی چاہئے کہ بے حیائی صرف کپڑوں تک محدود نہیں ہے بلکہ اخلاقیات سے عاری بات چیت اور ذمہ داری و فرائض سے پہلو تہی بھی اس میں شامل ہے۔اسلام میں حیا کو جو مقام حاصل ہے۔آپ ؐ کا ارشاد گرامی ہے’’ہر مذہب کی کوئی نہ کوئی خصوصیت ہوتی ہے اسلام کی خصوصیت حیا ہے۔‘‘(ابن ماجہ)خلاصہ یہ کہ اخلاقیات کی بنیاد پر صحت مند اور خوبصورت سماج کی تشکیل کے لئے اسلام نے ہر ممکن اور مضبوط راستہ دکھلایا ہے چنانچہ اسی سلسلے کی ایک کڑی بڑوں کی عزت اور چھوٹوں سے محبت کی تعلیم ہے۔ نبی اکر م ؐ کا ارشادِ گرامی ہے ’’جو چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور بڑوں کی تعظیم نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔‘‘ (ابودائود)