17 رمضان المبارک سن 2 ہجری کو حق و باطل کا پہلا معرکہ ایک طرف اللہ تعالی کی وحدانیت اور دوسری طرف صحابہ کرام کا اپنے رب پر توکل کی شاندار مثال ہے۔ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پکار پر قلیل مقدار میں مسلمان تھوڑے سے جنگی ساز و سامان کے ساتھ کفار مکہ کے جاہ و جلال کے باوجود ان سے نبرد آزما ہونے کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔
حیرت ہوتی ہے کہ ایک طرف کفار مکہ کے لشکر کا رعب و دبدبہ دوسری طرف منافقین اور یہود مدینہ کی چالبازیاں بھی ان کے جذبہ ایمان کو کم نہ کر سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے بھی اپنے فرشتوں سے ان کی مدد کی اور آخرکار کفار مکہ کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
بدر کا یہ معرکہ مسلمانوں کے جذبہ ایمانی کو مزید تقویت دینے کا باعث بنا۔ کیا ایسا توکل الی اللہ اور قوت ایمانی آج کے مسلمانوں کے اندر پایا جاتا ہے؟ تھوڑی سی تکلیف پر بلبلا جانے والے مسلمان کیا طاغوتی حملوں کا مقابلہ کرنے کی ذرا سی بھی سکت رکھتے ہیں؟ دنیا کی عیش کوشی نے انہیں مٹی کا ڈھیر بنا دیا ہے۔
مسلم معاشروں میں کہیں بھی انسانیت دکھائی نہیں دیتی۔ جنہوں نے باطل کے ہتھکنڈوں کا مقابلہ کرنا تھا اپنی دینی اور جسمانی صلاحیتوں سے انہیں کو مضبوط سے مضبوط تر کرتے چلے جا رہے ہیں۔ مسلم ممالک ہر طرح کے دنیاوی مال و وسائل رکھنے کے باوجود اپنے اپنے مفادات کے حصار میں قید ہیں۔
اگر آج امت مسلمہ میں بدری صحابہ کرام کے ایمان جیسی کیفیت پیدا ہوجائے اور ان کی خودی کو بیدار کردیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ اس ٹھہرے ہوئے دریا میں طوفانی لہریں نہ پیدا ہو؟ لیکن اس کے لیے راستبازی اور امانت دار رہنماؤں کی اشد ضرورت ہے. اللہ مسلمانوں میں پیدا کرے۔ آمین۔
تیرے دریا میں طوفان کیوں نہیں ہے؟
خودی تیری مسلماں کیوں نہیں ہے؟