نوجوانوں کا محفوظ مستقبل کس کے ہاتھ؟ ( دوسرا اور آخری حصہ)

 والدین کے لیے حقیقت پر مبنی کیس سٹڈیز کے ذریعے ہدایات کو بھی نصاب کا حصہ بنانے کی تجویز بھی زیر غور ہے۔ سائبر کرائم کی صورت میں متعلقہ ادارے (سائبر کرائم ونگ ایف آئی اے) سے رابطے کے حوالے سے معلومات کو بھی نصاب کا حصہ بنانے کے عمل پر تجاویز بھی حکومت کو پیش کی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ ابتدائی جماعتوں سے ہی طلبا کو سائبر کرائم کے حوالے سے مضامین کو نصاب کا حصہ بنا کر آئندہ چند سالوں میں سائبر کرائم کی شرح کو کم کیا جا سکتا ہے۔ انٹر نیٹ کی ایک ایسی ہی خباثت ٹک ٹاک کے نام سے سامنے آئی اور دیکھتے ہی دیکھتے اس نے نہ صرف نوجوانوں کو اپنا غلام بنا لیا، بلکہ اس بلا نے تو بچوں اور بوڑھوں کو بھی نہیں بخشا۔ گزشتہ برس حکومت کی جانب سے اس ایپ پر پابندی لگائی گئی تھی، مگر نامعلوم وجوہات کی بنا پر اس پابندی کو ہٹا دیا گیا۔

موجودہ وبا نے بھی نوجوان نسل کو گمراہ کرنے میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔ درسگاہوں کے بند ہونے اور آن لائن کلاسز کے اجراء نے والدین کو مجبور کر دیا کہ وہ بچوں کے لیے سمارٹ فون اور لیپ ٹاپ یا اسی ٹائپ کے گیجٹس خریدیں۔ اس کے خوفناک نتائج بھی سامنے آ رہے ہیں۔ موبائل پیکجز اور موبائل ایپلیکیشنز عروج پر پہنچ چکی ہیں، جس کی وجہ سے نوجوان نسل تباہ ہو رہی ہے۔ موبائل کمپنیاں فری فیس بک اور فری واٹس ایپ کے مختلف پیکجز متعارف کروا کر نئی نسل میں بے حیائی اور بے راہ روی بانٹ رہی ہیں۔

موبائل فون ہماری سہولت کے لیے متعارف کروایا گیا تھا، مگر جاہل اور بگڑے ہوئے لوگوں نے اسے عریانیت اور بے راہ روی کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا، جس سے نوجوان نسل پر منفی نتائج مرتب ہو رہے ہیں۔ نوجوان نسل موبائل سے جڑے غلط راستوں پر گامزن ہو رہی ہے۔ ملک کے مستقبل کے روشن ستاروں کو تباہ و برباد کیا جا رہا ہے۔

وطن عزیز میں ایک بڑی اکثریت خط غربت سے نیچے زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم ہے۔ جہاں ہم غربت کا سامنا کر رہے، وہاں دیگر اہم مسائل جن میں مہنگائی، سیاسی عدم استحکام، دہشت گردی، بے روزگاری ہمارے سب سے بڑے مسائل ہیں۔ ناقص تعلیمی نظام اور تعلیمی سہولیات کے مسائل بھی درپیش ہیں۔ تعلیم ہی ایک ایسا ذریعہ ہے جو لوگوں کو اچھے اور بُڑے کا شعور فراہم کرتا ہے اور معاشرہ ترقی کی منزلیں طے کرتا ہے۔ بہترین تعلیمی نظام ہی بہترین اور مضبوط معاشرے کی ضمانت ہے۔ اگر ہم اپنی نوجوان نسل کی گفتگو اور اس میں استعمال ہونے والے الفاظ پر غور کریں، تو دل افسردہ ہوتا ہے۔ نوجوان نسل کی گفتگو گندی گندی گالیوں سے لبریز ہے۔ ہم اس نسل سے امید لگائے بیٹھے ہیں کہ ان میں سے محمد بن قاسم، طارق بن زیاد، سلطان محمود غزنوی، ٹیپوسلطان جیسے لوگ ابھر کر آئیں گے۔ ہمارے معاشرے میں بڑی تعداد میں ایسے نوجوان ہیں جو ڈگریاں تو رکھتے ہیں، مگر ان کے ذہن میں اس بات کو بٹھا دیا گیا ہے کہ یہاں ڈنڈے والے کی عزت ہے، یہاں پیسے والے کی عزت ہے، تو ہم آنے والی نسل سے بہتری کی کیا امید لگا سکتے ہیں۔

کسی بھی نسل کا کوئی بگاڑ اس میں اچانک پیدا نہیں ہوتا۔ برائی ہو یا بھلائی، دونوں ایک نسل سے دوسری نسل کو وراثت میں ملا کرتی ہیں۔ دراصل یہ جو ہمارا جدید نظام تعلیم ہے، اس کی خرابی یہ ہے کہ اسے حاصل کر کے انسان جس قدر ترقی کرتا چلا جاتا ہے، اسی قدر خودغرض، مکار، بزدل اور اپنوں سے دور ہوتا چلا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ ایک مقام وہ بھی آتا ہے، جب اس کی دنیا صرف اپنے بچوں تک محدود ہو کر رہ جاتی ہے۔ سماجی، خونی اور دوسرے تمام انسانی رشتے اس کے لیے بے معنی ہو کر رہ جاتے ہیں۔ ان عیوب سے صرف وہی لوگ پاک ہوتے ہیں، جنھیں اللہ کا کچھ خوف ہوتا ہے۔ ورنہ ان کے سامنے بس ایک ہی مقصد ہوتا ہے، وہ یہ کہ زیادہ سے زیادہ دولت کمالی جائے اور معاشرے میں کروفر کے ساتھ زندگی بسر کی جائے۔ اسی کو عقل مندی شمار کیا جاتا ہے۔ حالاں کہ اگر دولت کما لینا ہی عقلمندی کی دلیل ہے تو رشوت خور، دھوکے باز، فراڈیے، اسمگلر، چور، ڈاکو اور انسانیت کے دوسرے تمام دشمن بھی اس طرح کی عقلمندی کے مظاہرے کرتے رہتے ہیں۔ یہ سب وہ ڈگریاں ہیں جو ہم نے اپنی نئی نسل کو وراثت میں دی ہیں اور نئی نسل بڑی شد مد سے ان میں اضافہ کر رہی ہے۔

اب یہاں پر ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان گھٹتے ہوئے اخلاقی اقدار، لادینی اور الحاد پر مبنی عقائد، تشدد میں اضافہ، ان تمام منفی رویوں سے زیادہ افسوس ناک اثر جو آج کی نوجوان نسل پر پڑ رہا ہے۔ بے حیائی اور بیراہ روی کے طریقوں کو جس طرح فروغ مل رہا ہے۔ ان کے ذمہ دار کون ہیں؟ خود نوجوان نسل، والدین، سرپرست، اساتذہ یا بگڑتا معاشرہ؟ اکثر اوقات دیکھا جاتا ہے کہ والدین جن برائیوں کو معاشرے میں دیکھتے ہیں، دوسرے بچوں کو جن برائیوں کا ارتکاب کرتے ہوئے معیوب سمجھتے ہیں، اگر اُنہی برائیوں میں خود اپنے بچوں کو ملوث دیکھیں تو اس کا کچھ زیادہ سنجیدگی سے نوٹس نہیں لیا جاتا۔ والدین اپنے بچوں کی جانب مثبت طور پر راغب نہیں ہوتے، بلکہ بعض اوقات ان کی غلط عادات کو بیجا لاڈ و پیار کے تحت رعایت تک دے دیتے ہیں۔ ہمیں اچھی طرح سمجھنا چاہئے کہ ایسا نہیں ہے کہ ہم نے جو کچھ بھی پڑھا، دیکھا یا سنا، وہ صرف اُسی محدود وقت کے لیے تھا اور بس ختم! اور ہم پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ ہم جو کچھ پڑھتے، دیکھتے یا سنتے ہیں وہ کہیں کھو نہیں جاتا، بلکہ ہمارے ذہن کے لاشعور میں محفوظ ہو جاتا ہے اور پھر بعد میں جو کچھ معلومات ہم اپنے ذہن سے اخذ کرتے ہیں وہ ”محفوظ معلومات“ کسی نہ کسی طرح سے اظہار کی راہیں تلاش کرتی ہیں۔ یوں ہماری گفتگو، ہمارے جذبات و احساسات، اعمال و معاملات، غرض ہماری مکمل شخصیت میں ہماری ذہنیت کا ظہور ہوتا ہے۔ یہاں پر وہ محاورہ صادق آتا ہے کہ ”جو بویا جائے وہی کاٹا بھی جائے گا۔“

کسی بھی معاشرے کی کردار سازی کی ذمہ داری اس معاشرے سے تعلق رکھنے والے تمام افراد پر عائد ہوتی ہے۔جرائم میں ملوث بُڑے لوگوں کے ساتھ اچھے لوگ بھی برابر کے شریک ہوتے ہیں۔ اچھے لوگوں کی خاموشی ان لوگوں کو مزید مضبوط سے مضبوط کرتی جاتی ہے، یہاں تک کہ جرائم کو روکنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ ہمیں معاشرے کی کردار سازی میں اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہو گا، تا کہ ہم اپنی آنے والی نسل کو ایک اچھا ماحول دے سکیں۔