ہر سال دنیا بھر کے سو سے زائد ممالک میں 23 اپریل کواقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو کے تحت منائے جانے والے دن کو “عالمی یوم کتب ” کا نام دیا جاتا ہے۔ جس کا آغاز 1995 سے ہوا۔ اس دن سرکاری و غیر سرکاری اداروں میں سیمینار اور کانفرنسز کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ جس کا مقصد نوجوانوں میں کتب کی اہمیت کو فروغ دینا اور کتب بینی کے شوق کو اجاگر کرنا ہوتا ہے۔
اگرچہ یہ دن کیٹولینیا کے لوگ اپنی محبوب خواتین کو گلاب کے پھول دے کر مناتے تھے اور یہ سلسلہ دو دن تک جاری رہتا۔ چونکہ یہ دن شیکسپیئر کی وفات کا بھی دن تھا تو لوگ اس دن ان کے ڈرامے اور کتب وغیرہ شوق سے پڑھتے تھے۔ یہیں سے یہ رسم پھیلی اور آہستہ آہستہ یہ دن “ورلڈ بک ڈے” کے طور پر منایا جانے لگا۔ اب اس دن فقط پھولوں کی خرید و فروخت نہیں ہوتی بلکہ کتابوں کی بھی ریکارڈ درجہ تک خرید و فروخت ہوتی ہے۔ کچھ سالوں سے اس میں ایک اور اضافہ کیا گیا ہے کہ کسی ایک شہر کو کتابوں کا عالمی دارالحکومت بھی قرار دیا جاتا ہے۔ 2001 میں میڈرڈ تھا۔ پھر بالترتیب اسکندریہ، نئی دہلی، اینٹ روپ، مونٹریال، ٹورن، بگوٹہ، ایمسٹرڈم اور بیروت کو یہ اعزاز حاصل رہا ہے۔
صد افسوس 22 کروڑ عوام کا ملک اس اعزاز سے تو محروم ہی رہا۔ وطن عزیز پاکستان کا پڑوسی ملک ایران دو ہفتے تک اس کتب میلے کا اہتمام کرتا ہے۔ جس میں دو ہزار سے زائد ملکی اور غیر ملکی ناشرین شرکت کرتے ہیں۔ کسی بھی ملک کے لیے یہ بہت بڑا اعزاز ہے۔ جہاں لوگوں کو پچاس فیصد تک ڈسکاؤنٹ پر کتابیں ملتی ہیں وہاں اس قوم کا اچھا چہرہ دنیا کے سامنے جاتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ” محسن ” کا کوئی دن نہیں ہوتا۔ ہر ہر گھڑی، ہر ہر لمحہ محسن کے نام ہوتا ہے۔ محسن کے نام تو زندگیاں وقف کردی جاتی ہیں۔ انہیں یاد رکھنے کے لیے کسی یادہانی کی ضرورت نہیں پڑتی۔ وہ تو زندگی کا حصہ بن جاتا ہے۔ مگر آج کل تو گویا “ایام” کا سیلاب آ گیا ہے۔ ہر مہینے کوئی نہ کوئی دن منایا جاتا ہے۔ کوئی نیا شعور پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کتابیں ہماری محسن و مربی ہیں، عروج و کمال کی بہترین ہم سفر ہیں، خوشی و غمی کی باوفا ساتھی ہیں۔ جو انہیں اپنا محسن و مربی مان لے، یہ اس کے لیے علم و ہنر کے دروازے کھول دیتی ہیں۔ پھر ایسے لوگ کہیں تو ستاروں پر کمندیں ڈالتے نظر آتے ہیں اور کہیں سمندر کی تہیں کھنگالنے نظر آتے ہیں۔ کہیں تو پیٹ سے زیادہ بقاء انسانیت کے لیے مجبوری بن جاتی ہیں۔
کتاب کسی قوم کی تہذیب و ثقافت اور ترقی کا آئینہ ہوتی ہے۔ کتاب تنہائی کی اک بہترین محبوبہ ہوتی ہے۔ جو اسے ماضی کے مزے دار، دل سوز اور سبق آموز قصے سناتی ہے۔ کتاب اس ماں کی سی ہوتی ہے جو اپنے طالب کو انگلی پکڑ کر شعور اور ترقی کی سیڑھیوں پر چڑھاتی ہے۔ جس سے کسی قوم و ملت کے لیے مستقبل کے تمام شعبہ ہائے زندگی میں منزل تک پہنچنا آسان ہو جاتا ہے۔اس موقع پر چند سوالات جنم لیتے ہیں: کیا ایسے محسن کے لیے بھی کوئی “ایک” دن ہونا چاہیے تھا؟ کیا ایسے محسن کے لیے بھی اقوام متحدہ کی قرارداد کی ضرورت پڑ سکتی ہے؟ کیا ایسے محسن کو بھی قوم میں متعارف کروانے کی ضرورت پیش آ سکتی تھی؟تو جواب لیجیے “ہاں”۔ جہاں کتابوں کو جلا دیا جائے، جہاں کتابوں کی سیاہی سے پانی کالا کردیا جائے، جہاں کتابیں سڑک کنارے فٹ پاتھوں پر بکیں۔ جہاں احساس کو فقدان ہو، وہاں اس دن کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہاں ان کی اہمیت بیان کرنا لازم اور شعور بیدار کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔ جہاں کی تقریبا ستر فیصد آبادی کتب سے دوری اختیار کر جائے وہاں ایسے دن کو منانا ضروری ہو جاتا ہے۔ ہم نے اپنے آباء کی کتب کی ناقدری کی اور یورپ نے انہی کی پیروی کرتے ہوئے ترقی کی منزل پالی۔ آج بھی ہماری بہت سی کتب ان کی لائیبریریوں کی زینت بنی ہوئی ہیں بقول شاعر مشرق:
وہ علم کے موتی، کتابیں اپنے آباء کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں، تو دل ہوتا ہے سی پارہ
افسوس کہ ہم تو یہ دن بھی نہایت “سادگی” سے مناتے ہیں۔ حکومتی عدم دلچسپی کی بنا پر ہمارے سیمینار، ہمارے جلسے اپنی اہمیت کھو چکے ہیں۔ فقط دکھلاوے کی حد تک کہیں کوئی اکٹھ ہو جائے تو ہو جائے ورنہ تو لوگوں کو احساس تک نہیں ہوتا۔ جہاں دفاع کے لیے ستر سے اسی فیصد اور تعلیم کے لیے فقط تین سے چار فیصد بجٹ مختص کیا جائے ، جہاں کتابیں سڑکوں پر اور جوتے شیشوں میں سجائے جائیں تو وہ قوم شعور کی نہیں “جوتیوں ” کی محتاج ہوتی ہے۔شکر ہے کہ چند سالوں سے کراچی اور لاہور جیسے بڑے شہروں میں کتب میلے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اور کافی حد تک لوگ شرکت بھی کرتے ہیں۔ بہت نایاب اور عمدہ کتابیں ایک ہی جگہ میسر ہو جاتی ہیں۔ جس سے کسی حد تک اس کی اہمیت بھی لوگوں میں متعارف ہو جاتی ہے ۔ حالانکہ کتاب کی اہمیت ان سے سیکھنی چاہیے تھی جنہوں نے علم کو چٹانوں کے پتھروں، درخت کے چھالوں، جانوروں کی ہڈیوں اور کھجور کے پتوں پر لکھ لکھ کر محفوظ کیا اور باحفاظت اپنی اگلی نسلوں تک علم منتقل کیا۔
سنا ہے ہمارے بڑے کبھی کتاب ٹیک لگا کر نہیں پڑھتے تھے بلکہ کتاب کے تابع ہو کر اس کی طرف جھک کر پڑھتے تھے۔ کتاب کو گھماانے کی بجائے خود گھوم جاتے تھے۔ کبھی کتاب پر ٹیک نہیں لگاتے تھے۔ اس کی طرف پاؤں کرنے سے بھی گریز کرتے تھے۔ مگر آج دینی کتب کا تو کسی حد تک احترام کیا جاتا ہے مگر دنیاوی علوم کی کتب کی حد درجہ ناقدری کی جاتی ہے۔ جب کسی نعمت کی ناقدری کی جائے تو اللہ تعالیٰ وہ نعمت چھین لیتے ہیں۔ ہم نے کتب کی ناقدری کی۔ اللہ تعالیٰ نے کتب کو ہم سے دور کردیا۔ اب ہر کوئی موبائل فون پر مصروف ہو گیا۔ انٹرنیٹ سے علوم حاصل کرنے کی کوشش میں لگا ہے۔ کتب خریدنے کے لئے جہاں آپ کو ہزاروں روپے کی ضرورت پڑتی ہے وہیں پر ہزاروں کتب چند سو کے پیکج سے حاصل کر لی جاتے ہیں۔ لیکن اول تو انٹرنیٹ سے مستند علوم کا حصول مشکل ہے۔
اگر حاصل ہو بھی جائے تو تادیر محفوظ نہیں رہ سکتا۔ اگر محفوظ رہ بھی جائے تو ایسا علم نافع نہیں بنتا۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج ہمارے الفاظ بے اثر ہو گئے ہیں۔ واعظ کا وعظ شوق کی حد تک سنا جاتا ہے۔ عمل کا کوئی تعلق نہیں رہا۔ہمیں اپنے بہترین مستقبل کے لیے سستی اور معیاری کتب کی فراہمی کو یقینی بنانا ہوگا۔ اپنے بچوں کے ہاتھوں میں موبائل کی بجائے اچھی اچھی کتب اور کہانیاں دینی ہوں گی تاکہ انہیں کتب بینی کا شوق پڑ جائے۔ کیونکہ بچے کہانیوں کی طرف زیادہ رغبت رکھتے ہیں۔ یہیں سے کتب بینی پروان چڑھے گی۔ جو بہترین مستقبل کی ضمانت ہو گی۔ ہمیں اپنی لائبریریوں کا آباد کرنا ہوگا۔ اپنے نوجوان کو خلاصے، ماڈل پیپرز اور گائیڈز سے ہٹا کر اصل کتب کی راہ دیکھانا ہو گی۔ ورنہ اگلی نسل یہ خلاصے، اور ماڈل پیپرز سے بھی بالکل عاری ہو جائے گی۔ لہذا بہترین مستقبل کے لیے بہترین فیصلے کرنا ہوں گے تاکہ دن منانے کا حق ادا ہو سکے۔