دنیا میں وبائی صورتحال کے پیش نظر اگرچہ اہم عالمی اجتماعات کا آف لائن انعقاد بدستور کافی دشوار ہے لیکن اس دوران ٹیکنالوجی کی مدد سے ورچوئل سیمینارز ،کانفرنسز نے دنیا کو مشاورت اور تبادلہ خیال کا موقع ضرور فراہم کیے رکھا ہے۔ایشیائی خطے کے تناظر میں بوآو ایشیائی فورم کو ہمیشہ اہمیت حاصل رہی ہے جہاں پاکستان سمیت دیگر ایشیائی ممالک فعال طور پر شریک ہوتے آئے ہیں۔
اس وقت جنوبی چین کے صوبہ ہائی نان کے ایک چھوٹے سے قصبے میں فورم کا سالانہ اجلاس جاری ہے جہاں 60 سے زائد ممالک اور خطوں کے 2،600 سے زیادہ افراد جمع ہیں۔سال 2021اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ اس سال بوآو ایشیائی فورم کےقیام کی 20ویں سالگرہ منائی جا رہی ہے۔سن1997 میں ایشیائی اقتصادی بحران کے نتیجے میں بوآو فورم کی بنیاد 2001 میں ایک غیر سرکاری تنظیم کے طور پر رکھی گئی تھی جو ایشیائی اور متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کے مابین تعاون اور تبادلہ کے مضبوط پلیٹ فارم میں ڈھل چکا ہے۔اس فورم کا دائرہ کار صرف ایشیاء تک ہی محدود نہیں ، بلکہ دنیا کے مشترکہ استحکام اور ترقی پر مبنی ہے۔ حالیہ سالوں کے دوران اس فورم نے دنیا بھر کے شراکت داروں کو اپنی جانب متوجہ کیا ہے اور ایشیاء سے باہر کئی مقامات پر سیمینارز منعقد کروائے گئے ہیں۔
رواں برس فورم کے شرکاء پوسٹ کووڈ۔19 دور میں ایشیاء اور عالمی سطح پر ترقی اور خوشحالی کے فروغ کے اہم موضوعات پر تبادلہ خیال کر رہے ہیں۔اتوار سے بدھ تک شیڈولبوآو ایشیائی فورمکا سالانہ اجلاس بنیادی طور پر آف لائن صورت میں منعقد ہونے والی دنیا کی پہلیوسیع پیمانے پر عالمی کانفرنس ہے۔
بین الاقوامی سطح پر اس اجلاس کی اہمیت اس باعث بھی زیادہ ہے کہ دنیا عالمی وبا سے ہونے والے نقصانات سے نجات کے لئے کوشاں ہے ،موجودہ صورتحال میںکووڈ۔19وبا کے باعث ایشیاء اور دنیا کو ایک اور عالمی بحران کا سامنا ہے لہذا فورم کے انعقاد کی اہمیت پہلے کی نسبت کہیں زیادہ ہے جہاں چین اور دیگر ایشیائی ممالک انسداد وبا اور اقتصادی بحالی کے لیے موئثر تجاویزسامنے لا رہے ہیں۔اسی باعث رواں برسفورم کا موضوع ہے ” تبدیلی سے دوچار دنیا: مشترکہ طور پر عالمی گورننساور بیلٹ اینڈ روڈ تعاون کو مضبوطی سے آگے بڑھائیں۔”
گذشتہ دو دہائیوں کے دورانبوآو ایشیائی فورم کو نہ صرفایشیاءبلکہ عالمی سطح پر اس قدر نمایاں اہمیت حاصل ہو ئی ہے کہ دنیا اسے “ڈیووس فار ایشیاء” کے نام سے جانتی ہے۔بالخصوص موجودہ صورتحال میں فورم کا انعقادخطے میںاعتماد اور امید کا ایک مضبوط اشارہ ہے۔شرکاء کی متنوع فہرست میں بین الاقوامی تنظیموں ، اہم حکومتی رہنماوں کے علاوہ کاروباری برادری، خطے اور دنیا بھر کے علمی حلقوں کے رہنما بھی شامل ہیں۔ حالیہ فورم مشترکہ چیلنجوں سے نمٹنے اور علاقائی وعالمی سطح پر استحکام اور خوشحالی کو فروغ دینے میں مذاکرات اور کوششوں کو مربوط کرنے کے لئے اسٹیک ہولڈرز کی مشترکہ دلچسپی کا بہترین مظہر ہے۔
فورم کے دوران ڈیجیٹل معیشت اور کاربن نیوٹرل جیسے موضوعات کو اہمیت دی جا رہی ہے۔لچکدار سپلائی کے ساتھ ساتھ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں (ایس ایم ایز) کی ترقی سے متعلق بھی تبادلہ خیال جاری ہے کیونکہایس ایم ایز خطے میںروزگار کی فراہمی اور ملکی ترقی کے کلیدی محرک ہیں۔ عالمی صحت عامہ کے ساتھ ساتھ سائنس و ٹیکنالوجی تعاون کے لئےبھی خصوصی مشاورتی سرگرمیوں کا انعقاد فورم میں شامل ہے۔بوآو ایشیائی فورم کے آغاز میںدواہمرپورٹس بھی جاری کی گئی ہیں۔ “
بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو بھی فورم کا ایک گرما گرم موضوع ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ایشیائی خطہ متحرک تو ہے لیکن معیاری بنیادی ڈھانچے میں بدستور کافی پیچھے ہے جو معاشی نمو ،تخفیف غربت اور معاشرتی ترقی کی کلید ہے۔ اس ضمن میں نہ صرف مضبوط انفراسٹرکچر جیسے سڑکوں ، پلوں اور بندرگاہوں کی ضرورت ہے بلکہ صحت عامہ ، ڈیجیٹل سہولیات ، وسائل کے تحفظ اور ماحولیاتی تحفظ جیسے شعبوں میں بھی سافٹ انفراسٹرکچر کی ضرورت ہے ، جس پر زیادہ توجہ اور مناسب سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔
چین اس وقت دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے اور گذشتہ بیس برسوں کے دوران بوآو ایشیائی فورم اورچین نے ایکدوسرے کےساتھ ترقی کی ہے، مستقبل میں یہ فورم مزید وسیع پیمانے پر ایشیاء سے باہر بھی جائے گا اور بین الاقوامی امور میں زیادہ سے زیادہ کردار ادا کرے گا۔ایشیاء کے سب سے بااثر معاشی فورم کے طور پر یہپلیٹ فارم خطے میں تبادلہ و تعاون کی آسانی اور معاشی اتحاد کو فروغ دینے کے لئے پرعزم ہے۔