رمضان میں نیکیاں اس طرح بڑھتی اور پھلتی پھولتی ہیں جس طرح موسمِ بہار میں سبزہ۔اس کے آنے پر جنت سجا دی جاتی ہے اور جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں۔ہر نفل کا ثواب ایک فرض کے برابر کر دیا جاتاہے۔اور ہر فرض کا ثواب ستر گناہ بڑھا دیا جاتا ہےاور ایک پکارنے والا فرشتہ پکار کر کہتا ہے کہ. ..
ترجمہ: “اے بھلائی کے طالب! آگے بڑھ اور اے برائی کے طالب! پیچھے ہٹ جا۔” (سنن ترمذی، سنن ابن ماجہ)
نبی کریمﷺ کا فرمان ہے کہ
“اگر کوئی فرد رمضان کا روزہ بغیر کسی شرعی عذر کے چھوڑ دے، وہ بعد میں اگر ساری عمر بھی مسلسل روزے رکھتا رہے، تب بھی وہ رمضان کے روزے کی فضیلت کو نہیں پا سکتا۔”
مزید پڑھیے : رمضان نیکیوں کا موسم بہار ( دوسرا حصہ)
اور اگر کوئی بغیر شرعی عذر کے روزہ توڑ دے تو اس کو کفارے کے طور پر ایک غلام آزاد کرنا ہو گا یا دو ماہ کے مسلسل روزے رکھنے ہوں گے یا پھر ساٹھ مسکینوں کو دو وقت کا مناسب کھانا کھلانا ہو گا۔ (صحیح مسلم)
ایک دفعہ نبی اکرم ﷺ اپنے منبر کی دوسری سیڑھی پر چڑھے تو جبریل امین آۓ اور کہا “اے اللّٰہ کے رسول ﷺ! اس شخص پر اللّٰہ کی لعنت ہو جس کی زندگی میں رمضان المبارک کا مہینہ آیا اور اس نے باوجود صحت و تندرستی کے روزہ نہ رکھا۔” آپ ﷺ نے فرمایا ” آمین”
نہایت بد نصیب ہے وہ شخص جس نے اتنا بابرکت مہینہ پایا مگر کمزوری و لاغری کا خود ساختہ بہانہ کر کے روزہ نہ رکھا۔پھر وہ نہ صرف رمضان کی ہر خیر و برکت سے محروم رہا بلکہ جبریل امین اور نبی رحمتﷺ دونوں کی بددعا کا مستحق بھی بن گیا۔
مزید پڑھیے : رمضان نیکیوں کا موسم بہار ( پہلا حصہ)
طلبہ و طالبات کے لیے مشکل پڑھائی اور امتحانات کے بہانے، لوگوں کے لیے کمزوری اور ناتوانی کے بہانے، جاب کرنے والوں کے لیے سخت محنت و مشقت والی جاب اور دیہاڑی مزدوری کے بہانے وغیرہ سامنے آتے ہیں۔ اور یہ لوگ پھر روزے نہیں رکھتے۔
یہ سب دین سے دوری کا نتیجہ ہے کہ انہیں رمضان اور روزوں کی عظمت و فضیلت کا احساس نہیں ہوتا۔
ربِّ کائنات کے حضور استدعا ہے کہ وہ ہم سب کو رمضان کے ثمرات سے فیض یاب ہونے، نیکیوں اور بھلائیوں میں اضافہ کرنے اور اپنے مقرب و صالح بندوں میں شامل ہونے کی سعادت سے بہرہ مند فرمائے۔ آمین ثم آمین۔ یارب العالمین۔