رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ دے کر اللہ ہم سے کیا مطالبہ کرتا ہے؟ کیا مسلمانوں کو اس بات کا بھی ادراک ہے؟ ہم بس دعائیں ہی کرتے رہتے ہیں اور عمل ندارد صرف بیٹھ کر قرآن پڑھنا اور سننا ہی مسلمانوں کو بہت بھاری محسوس ہوتا ہے۔
اللہ کو بے عمل مسلمان مطلوب نہیں ہیں۔ وہ روزے کے ذریعے سے ہماری قوت مدافعت کو چیک کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ مسلمان جسمانی اور روحانی لحاظ سے اتنے مضبوط ہو جائیں کہ دجالی فتنوں کا مقابلہ کرنا ان کے لیے آسان ہو جائے۔
جتنی بھی مہلت زندگی ہے اس کو دنیاوی کھیل تماشوں میں ضائع کرنے کے بجائے اس مقصد کو پانے کی کوشش کریں کریں جس کی ذمہ داری اللہ نے ہر مسلمان پر ڈالی ہے کہ صرف کسی ایک خطہ زمین پر نہیں بلکہ پوری زمین پر اللہ کی حکمرانی قائم کی جائے۔
ابھی بھی وقت ہے مسلمانو! مغربی طاقتوں کا آلہ کار بن کر انہی کے ہاتھوں کو مضبوط کرنا چھوڑ دو جو مسلم ممالک کی افرادی قوت سے اپنی ملوں مشینوں کے کل پرزوں کا کام لے کر خوب پھل پھول رہی ہے اور اس دولت اور اسلحے کے زور پر مسلمانوں کی نسلوں کو تباہ و برباد کر رہی ہیں۔
ہمیں اب اپنی صلاحیتیں اور مہارتیں اپنے ہی ملکوں کے لیے استعمال کرنی چاہئیں۔ ہماری نسلیں چند دنیاوی آسائشوں کے عوض مغربی اقوام کی چاکری بخوشی قبول کر لیتی ہیں۔ اس غلامی کے بیج کو دل و دماغ میں پروان چڑھانے میں والدین اور نظام تعلیم کا بھی بہت اہم کردار رہا ہے جس کی وجہ سے ہماری نئی نسلیں دین کے سپاہی بننے کے بجائے یہود و نصاریٰ کے ہرکارے بن گئے۔ ہماری ان عبادتوں اور ریاضتوں کا کیا فائدہ جو مسلمانوں کو گروہوں اور فرقوں میں بانٹ کر پارہ پارہ کر دیں؟
وحدت کی حفاظت نہیں بے قوت بازو
آتی نہیں کچھ کام یہاں عقل خداداد
اس ماہ مبارک میں اللہ تعالی کی طرف سے جو جائز خواہشات سے روکنے کی تربیت کی جاتی ہے وہ پورے سال ناجائز خواہشات سے روکنے میں معاون و مددگار ثابت ہوتی ہے۔ اللہ امت مسلمہ کے سب معاملات کو آسان کریں۔ آمین۔