دین اسلام ایک ایسا مذہب ہے جس کا کوئی حکم بھی حکمت سے خالی نہیں، چاہے وہ بڑے بڑے احکامات نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ کے بارے میں ہو یا پھر چھوٹے چھوٹے آداب معاشرت ہوں اور یہ کیسی مہربانی، احسان اور عطاء ربی ہے کہ اگر ہم ان احکامات پر عمل پیرا ہو جاتے ہیں تو ایک طرف ہم اللہ کے محبوب بندے بن کر اپنی آخرت سنوار لیتے ہیں اور دوسری طرف جسمانی و معاشرتی صحت و سکون کے ساتھ کامیاب زندگی گزارنے کا سامان پیدا کرتے ہیں اور اس سے بڑھ کر ہم پر اللہ تعالی کا کیا احسان ہوگا کہ جن باتوں میں ہماری دنیا سنورتی ہے، انہی کو ہماری آخرت سنوارنے کا ذریعہ بھی بنا دیا۔
روزہ اسلام کا تیسرا رکن ہے یعنی دین اسلام کی عمارت کا ایک مضبوط ستون ہے، جو ہر عاقل بالغ مرد اور عورت پر فرض ہے۔ جس کی حکمت جاننے کے لیے صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ غیر مسلم لوگوں نے ڈھیروں تحقیقات کیں اور روزے کے جسمانی و روحانی فوائد و ثمرات کا برملا اعتراف کیا۔ اللہ تعالی نے جس عبادت پر جتنا زیادہ زور دیا، وہ فرداً و اجتماعا (معاشرتی طور پر) اتنی ہی زیادہ فائدہ مند ہے اور روزہ تو ایسی عبادت ہے جس کا حکم صرف امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی نہیں بلکہ پہلی امتوں کو بھی دیا گیا۔ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا۔
“اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر بھی فرض کئے گئے تھے”(البقرہ 183)
روزہ مسلمانوں اور اہل کتاب کے لئے اللہ تعالی کا حکم ہے لیکن دیگر مذاہب کے لوگوں نے بھی کسی نہ کسی صورت میں روزے کو اپنے مذہب کا جزو بنا کر رکھا۔ جیسے جین دھرم اور قدیم مصریوں میں بھی روزہ موجود رہا۔ یونان میں صرف عورتیں تسو فریا کی تیسری تاریخ کو روزہ رکھتی تھیں۔ پارسی مذہبی پیشواؤں میں بھی پانچ سالہ روزہ ضروری تھا۔ مکہ کے قریش عہد جاہلیت میں عاشورہ یعنی دس محرم کا روزہ رکھتے تھے کیونکہ اس دن کعبہ پر غلاف ڈالا جاتا تھا۔ ہندو ہر ہندی مہینے کی 11، 12 تاریخ کو برہمن اکاوشی کا روزہ رکھتے اور برہمن کا تک کے مہینے میں ہر پیر کو روزہ رکھتے تھے۔ انڈیا کی تحریک آزادی کے لیڈر گاندھی کے فاقے مشہور ہیں۔ فیروز راز نے گاندھی کی زندگی کے حالات میں یہ بات لکھی ہے کہ گاندھی جی روزے کے قائل تھے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ انسان کھا کھا کر اپنے جسم کو سست اور کاہل کر لیتا ہے اور کاہل اور کسل مند جسم نہ دنیا کا اور نہ ہی مہاراج کا۔ اگر تم جسم کو گرم اور متحرک رکھنا چاہتے ہو تو جسم کو کم سے کم خوراک دو اور روزے رکھو۔
اس طرح بہت سارے غیر مسلم ڈاکٹرز نے بھی روزے پر تحقیق کی اور نہ صرف روزے کے فوائد کو تسلیم کیا بلکہ لوگوں کو روزہ رکھنے پر زور دیا اور اسے کئی بیماریوں کا علاج بھی قرار دیا۔ اب ہم روزے کے فوائد جاننے کی کوشش کرتے ہیں جس کے بارے میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“روزے کو اپنے اوپر لازم کر لو کیوں کہ اس جیسی اور کوئی عبادت نہیں۔”(سنن نسائی)
اللہ تعالی نے سورہ بقرہ میں ارشاد فرمایا:
“روزہ رکھنے میں ہی تمہارے لیے بھلائی ہے اگر تمہیں سمجھ ہو۔“
اللہ تعالی کے اس قول مبارک میں ہمارے لیے ہر طرح کی بھلائی پوشیدہ ہے۔ کاش ہم روزہ جیسی عبادت سے حاصل کردہ رحمتوں و فوائد کو سمجھ سکتے۔ کچھ عرصہ پہلے تک یہ سمجھا جاتا تھا کہ روزہ سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ یہ عبادت کے علاوہ نظام ہضم کے لیے سراپا آرام بھی ہے لیکن جیسے جیسے طبی علم نے ترقی کی، اس حقیقت کا بتدریج علم حاصل ہوا کہ روزہ تو ایک طبی معجزہ ہے۔ اس وجہ سے مذکورہ آیت مبارکہ کا آخری حصہ کہتا ہے کہ “اگر تمہیں سمجھ ہو” ہمارے جسم کے اکثر اعضاء جیسے منہ، گلا، زبان، معدہ سے گلے تک خوراک لے کر جانے والی نالی، جگر اور لبلبہ تک، روزہ ان سارے اعضاء پر ایک ماہ کا آرام طاری کر دیتا ہے۔ لیکن ان کا حیران کن اثر بطور خاص جگر پر ہوتا ہے اور روزے کے ذریعے اسے چار سے چھ گھنٹوں تک آرام مل جاتا ہے۔ تمام فضول مادوں کا اچھی طرح تحلیل ہو جانے کی وجہ سے خون کی شریانوں کی دیواروں پر چربی یا دیگر اجزا جم نہیں پاتے کیونکہ خون میں موجود غذائیت کے تمام ذرے اچھی طرح تحلیل ہو چکے ہوتے ہیں۔ اس طرح شریانیں سکڑنے سے محفوظ رہتی ہیں۔ یہ عمل کئی خطرناک بیماریوں سے بچاتا ہے۔
روزے کے دوران اعصابی نظام مکمل سکون اور آرام کی حالت میں ہوتا ہے۔ روزے کے روحانی فوائد بھی بے شمار ہیں۔ مختصر یہ کہ عبادات کی بجا آوری سے حاصل شدہ تسکین ہمارے دلوں میں چھپی تمام کدورتوں اور غصے کو دور کر دیتی ہے۔ اس سلسلے میں زیادہ خشوع و خضوع اور اللہ تعالیٰ کی مرضی کے سامنے سرنگوں ہونے کی وجہ سے تو ہماری پریشانیاں بھی تحلیل ہو کر ختم ہو جاتیں ہیں۔ اس طرح آج کے دور کے شدید مسائل جو اعصابی دباؤ کی صورت میں ہوتے ہیں، تقریبا مکمل طور پر ختم ہو جاتے ہیں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: روزہ رکھا کرو تندرست رہا کرو گے (طبرانی)
پوپ ایلف گال، ہالینڈ کا ایک بڑا پادری گزرا ہے۔ اس نے روزے کے بارے میں اپنے تجربات بیان کیے کہ میں نے شوگر، دل اور معدے کے امراض میں مبتلا مریضوں کو مستقل ایک ماہ تک روزے رکھوائے تو نتیجہ نکلا کہ شوگر کے مریضوں کی حالت بہتر ہو گئی، ان کی شوگر کنٹرول ہوگئی۔ دل کے مریضوں کی بے چینی اور سانس کا پھولنا کم ہو گیا۔ معدے کے مریضوں کو سب سے زیادہ افاقہ ہوا۔ ڈاکٹر لوتھر جیم کیمرج کا کہنا ہے کہ روزہ جسم اور خاص طور پر معدے کے امراض میں صحت کی ضمانت ہے۔اسی طرح مشہور ماہر نفسیات سگمنڈ فرائیڈ جس کی تھیوری نفسیاتی ماہرین کے لئے نشان راہ ہے، کا کہنا ہے کہ روزے سے دماغی اور نفسیاتی امراض کا کلی خاتمہ ہوتا ہے۔
روزہ دار کو جسمانی کھنچاؤ اور ذہنی ڈپریشن کا سامنا نہیں ہوتا۔ لیکن شرط ہے کہ روزہ، کھانے کی سادگی، روزے کا تقاضا اور مقاصد کے ساتھ پورا کیا جائے۔ روزے کے مذکورہ فوائد تو چند فوائد ہیں لیکن اہل علم اور محققین نے اس کے اور بھی بہت سارے فوائد تلاش کیے ہیں اور قیامت تک انکشافات ہوتے رہیں گے کیونکہ اللہ تعالی کا یہ قول، ابدی کتاب قرآن مجید کا حصہ ہے۔