ماہ رمضان کیا ہے؟
یہ روزے جیسی عظیم عبادت کا مہینہ ہے۔یہ نزول قرآن اور دیگر آسمانی کتب اور صحائف کے نزول کا مہینہ ہے۔یہ شب قدر جیسی عظیم ترین رات کا مہینہ ہے۔یہ سخاوت اور انفاق فی سبیل اللہ کا مہینہ ہے۔یہ جنت کے دروازے کھلنے اور جہنم کے دروازے بند کرنے کے اسباب کا مہینہ ہے۔یہ رواداری، الفت، مساوات اور مساقات کا مہینہ ہے۔یہ زندگانی میں تبدیلی اور انقلاب کا مہینہ ہے۔
ماہ رمضان، جس کے روزے رکھنے کی ہمیں تاکید کی گئی ہے، اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی جناب میں بہت اہم مہینہ ہے اور اس کی یہ فضیلت واہمیت کوئی اتفاقی امر نہیں بلکہ اسکے پیچھے ایک زبردست تاریخی عمل موجود ہے اور وہ یہ کہ تمام آسمانی کتب ماہِ صیام ہی میں نازل کی گئیں جن میں تورات، زبور، انجیل اور قرآن مجید شامل ہیں۔
مزید پڑھیے : رمضان نیکیوں کا موسم بہار ( پہلا حصہ)
اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتے ہیں کہ
ترجمہ: “رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن پاک نازل کیا گیا جو تمام لوگوں کے لیے ہدایت ہے، راہِ حق دکھانے والی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی کتاب ہے۔”(البقرة: 185)
پھر مزید وضاحت ہوتی ہے۔
ترجمہ: “ہم نے اس قرآن کو لیلۃالقدر میں نازل فرمایا ہے۔” (القدر:1)
یہ لیلۃالقدر کیا ہے؟ اور آپ کیا جانیں کہ یہ کیا ہے؟یہ ہزار مہینوں کی عبادت سے بہتر ہے۔ اس رات میں بہت سے فرشتے اور فرشتوں کا سردار فرشتہ جبرائیل امین (روح الامین اور روح القدس کا لقب پانے والا) رب العالمین کا ہر حکم لے کر روئے زمین پر نازل ہوتے ہیں۔یہ رات سراسر سلامتی ہے۔اس رات میں بنی نوع انسان کی بہتری کے لیے اللّٰہ تعالیٰ نے قرآن پاک کا ہدایت نامہ نازل فرمایا تھا۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے نزول سے جو احسان کیا، وہ یقیناً ہزار ماہ میں بھی سر انجام نہیں پایا تھا۔روزے کی غیر معمولی فضیلت واہمیت کیوں؟سوال یہ ہے کہ روزے کی یہ غیر معمولی فضیلت واہمیت کیوں ہے؟ اس کی وجہ بھی اسی حدیث قدسی میں بیان کر دی گئی ہے کہ
ترجمہ: “روزہ دار میرے لیے اپنی خواہشاتِ نفس اور کھانے پینے کو چھوڑ دیتا ہے۔” (صحیح مسلم)
دراصل بات یہ ہےکہ دوسری تمام نیکیاں انسان کسی نہ کسی ظاہری فعل سے ادا کرتاہے لیکن روزہ کسی ظاہری فعل سے ادا نہیں ہوتا بلکہ یہ ایک ایسا مخفی عمل ہے جو فقط انسان اور اس کے رب کے درمیان ہوتا ہے اور اسی بنا پر اس میں ریا کاری کا امکان نہیں ہوتا کہ وہ اللّٰہ کو کسی طور دھوکہ نہیں دے سکتا۔ اس کے علاوہ، روزہ دار کھانے پینے اور شہوانی خواہشات سے بے نیازی اختیار کر کے اپنے اندر ملائکہ کی صفات پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ لہٰذا وہ ﷲ کو محبوب ہوتا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالٰی نے فرمایا کہ: (صحیح مسلم)
مراد یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ روزے کی بے حد و حساب جزا دیں گے۔ جتنے گہرے جذبے اور اخلاص کے ساتھ انسان روزہ رکھے گا، جتنا تقویٰ اختیار کرے گا، روزے سے روحانی و دینی فوائد حاصل کرے گا اور پھر بعد میں بھی ان فوائد کو برقرار رکھنے کی کوشش کرے گا تو اللّٰہ رب العزت کے ہاں اس کی جزا بڑھتی چلی جائےگی۔
ایک حدیث میں روزے کی فضیلت اور اس کا ثواب یوں بیان کیا گیا ہے۔
ترجمہ: “جس نے اللّٰہ پر ایمان رکھتے ہوئے رمضان کے روزے محض ثواب سمجھ کر رکھے، اس کے پہلے سب گناہ بخش دیئے گئے۔” (صحیح بخاری)
اسی حدیث میں مزید بیان کیا گیا ہے کہ
ترجمہ: “جس نے اللّٰہ پر ایمان رکھتے ہوئے رمضان کی راتوں کا قیام محض ثواب سمجھ کر کیا، اس کے پہلے سب گناہ بخش دیے گئے۔” (صحیح بخاری)
کیا ہماری نماز، کیا روزہ
بخش دینے کے سو بہانے ہیں
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایاکہ “جب کوئی شخص بھول کر (روزہ میں) کھالے یا پی لے تو وہ اپنا روزہ پورا کرے، اس کو اللہ نے کھلایا اور پلایا ہے۔” ( صحیح بخاری: 1812)
حضرت نعمان بن ابی عیاش ابوسعید خدری سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا کہ آپ فرماتے تھے کہ “بےشک جو شخص اللہ کی راہ میں ایک دن بھی روزہ رکھے، اللہ اس کو دوزخ سے ستر برس کی مسافت کے برابر دور کر دیتا ہے۔” (صحیح بخاری: 104)
ارشادِ نبویﷺ ہے کہ:
ترجمہ: “روزہ (دنیا میں گناہوں اور آخرت میں جہنم سے بچانے والی) ڈھال ہے۔ جیسے تم میں سے کسی شخص کے پاس لڑائی کی ڈھال ہو۔”(سنن نسائی: 2230 ،2231)
ایک اور حدیث کے مطابق:
“جس شخص نے کسی روزہ دار کو روزہ افطار کروایا تو اس کو روزے دار جتنا ہی اجر و ثواب ملے گا بغیر اس کے کہ روزے دار کے اپنے اجر میں کوئی کمی واقع ہو۔” (سنن ترمذی)
روزے رکھواؤ، کھلواؤ ، جنت پاؤ
بندہ تو دو وقت کا کھانا ڈھونڈ رہا ہے
روزہ سحری و افطاری میں صرف رنگارنگ کھانے پکانے اور کھانے کا نام نہیں ہے۔ روزہ رکھ کر اپنے اردگرد کے لوگوں پر بھی توجہ رہنی چاہیے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کے گھر میں کھانوں کی فراوانی ہو، طرح طرح کے پکوان بن رہے ہوں اور ان کی خوشبو غریب ہمسایوں کے لیے آزمائش بن جاتی ہو۔
کہیں روزے پہ روزے صرف پانی پی کے کھلتے ہیں
کہیں بس نام پہ روزوں کے، افطاری کی باتیں ہیں
ایک موقع پر نبی کریمﷺ نے فرمایا:
ترجمہ: “روزہ دار کے لیے دو مسرتیں ہیں۔ ایک افطار کے وقت حاصل ہوتی ہے اور دوسری اپنے رب سے ملاقات کے وقت حاصل ہوگی۔اور روزہ دار کے منہ کی بو اللہ عزوجل کے ہاں مشک کی خوشبو سے زیادہ پاکیزہ (خوشبودار) ہے۔” (صحیح مسلم: 213)
حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ “رسول اکرم ﷺ سب سے زیادہ سخی تھے اور خاص طور پر رمضان میں، جب جبرائیل آپ ﷺ سے ملتے تو آپ ﷺ سب لوگوں سے زیادہ سخی ہوتے تھے اور جبرائیل آپﷺ سے رمضان کی ہر رات میں ملتے اور قرآن کا دور کرتے۔ نبی علیہ الصلاۃ و السلامﷺ بھلائی پہنچانے میں ٹھنڈی ہوا سے بھی زیادہ سخی تھے۔” (صحیح بخاری: 5)
حضرت سہل رضی اللہ عنہ نبی اکرمﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺنے فرمایا کہ “جنت میں ایک دروازہ ہے جس کو “ریان” کہتے ہیں۔ قیامت کے دن اس دروازے سے روزے دار ہی داخل ہوں گے، کوئی دوسرا داخل نہ ہوگا۔ کہا جائے گا کہ “روزہ دار کہاں ہیں؟” وہ لوگ کھڑے ہوں گےاور اس دروازہ سے ان کے سوا کوئی داخل نہ ہو سکے گا۔ جب وہ داخل ہو جائیں گے تو وہ دروازہ بند ہو جائے گا اور اس میں کوئی داخل نہ ہوگا۔” (صحیح بخاری: 1778)