اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے ،جس میں ہر انسان کے الگ الگ حقوق بیان کئے گئے ہیں۔حتی کہ یتیم جن کا پرسان حال کسی تہذیب میں کوئی نہ تھا، اسلام نے انہیں بھی جا بجا حقوق سے نوازا۔ اللہ تبارک و تعالی نے اپنی آخری کتاب قرآن مجید میں متعدد مقامات پر اس بارے میں صراحت سے ارشاد فرمایا ہے مثلاً:سورۃ البقرہ میں بنی اسرائیل سے جن آٹھ چیزوں کا پختہ عہد لیا گیا تھا ان میں سے ایک یتیم کے ساتھ اچھا سلوک کرنا بھی ہے۔
سورۃ النساء کی ابتدائی چند آیات میں یتیموں کے ساتھ معاشرت کے بہترین اصول اور احکام بیان کئے گئے ہیں کہ یتیموں کو ان کا مال دو، ان کے مال کو تبدیل نہ کرو، ان کے مال کو اپنے مال کے ساتھ ملا کر مت کھاؤ اگر اپنے مال کے ساتھ ملاؤ گے تو یہ بہت بڑا گناہ ہوگا، اگر یتیم لڑکیوں کے حق میں انصاف نہ کرنے کا ڈر ہو تو ان سے نکاح کرلو، یتیموں کو آزماتے رہو جب ان میں صلاحیت پاؤتو ان کا مال ان کے حوالے کر دو، یتیم کے بالغ ہونے سے پہلے ان کے مال کو ضرورت سے زیادہ استعمال مت کرو، مالدار کو چاہیے یتیم کے مال کو استعمال میں لانے سے بچتا رہے، جب یتیم کا مال ان کے حوالے کردو تو اس وقت گواہ بنالو، مال کی تقسیم کے وقت اگر یہ یتیم حاضر ہوجائے تو ان سے اچھے سلوک سے پیش آتے ہوئے انہیں بھی مال دے دو۔
جو لوگ یتیم کا مال ناحق ظلم کرتے ہوئے استعمال کرتے ہیں تو وہ حقیقت میں اپنے پیٹوں میں جہنم کی آگ کے انگارے جمع کر رہے ہیں اور ایسے شخص کو جہنم میں ڈالے جانے کی وعید سنائی گئی۔ سورۃ النساء کی آیت 36 میں اللہ تعالی کی عبادت کے حکم کے ساتھ جن چیزوں کا حکم دیا گیا، ان میں سے ایک یتیموں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا بھی ہے۔
سورہ بنی اسرائیل آیت نمبر 34 میں بھی ہے ’’اور یتیم کے مال کے قریب نہ جاؤ (تصرف نہ کرو )مگر اس طریقے سے جو سب سے بہتر ہو یہاں تک کہ یتیم اپنی جوانی کو پہنچ جائے۔ سورۃالکہف میں حضرت موسی اور حضرت خضر علیہما السلام کے سفر کے دوران حضرت خضر علیہ السلام نے ٹیڑھی دیوار کو سیدھا کرنے کی حکمت بھی یہی بیان کی تھی اس کے نیچے یتیموں کے لیے مال دفن کیا گیا تھا کہ وہ جب جوانی کو پہنچیں گے تو اللہ کی رحمت سے اسے نکالیں گے اور اپنے استعمال میں لے آئیں گے۔ سورۃالفجر میں انسان پر رب تعالیٰ کی طرف سے آزمائش اور روزی کی تنگی کی وجہ بیان کی کہ:’’ وہ لوگ یتیم کی عزت نہیں کرتے اور مسکین کو کھانا کھلانے پر ترغیب نہیں دیتے‘‘۔ سورۃ الماعون میں اس شخص کی نشانی بتلائی گئی جو قیامت کے دن کو جھٹلاتا ہے :’’یہی ہے وہ تو یتیم کو دھکے دیتا ہے‘‘۔
سورۃالضحی میں یتیم کو ڈانٹنے سے منع کیا گیا ہے۔یہ تو تھیں آیات قرآنی، اب ذرا احادیث مبارکہ پر بھی نظر ڈال لیتے ہیں: حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آخرت کی ہمیشہ والی زندگی میں جنت کی نعمتوں کا مستحق اور حق دار بننے کا نسخہ ذکر فرمایا ہے کہ جو شخص قیامت کے دن پر ایمان اور یقین رکھتا ہو اس کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے دنیا ہی میں جنت کی بشارت مل گئی، یہ وہ خوش قسمت انسان ہے جو یتیم کے ساتھ بھلائی کا معاملہ کرے۔ نیز فرمایا: ’’وہ شخص جو کسی یتیم کو اپنے کھانے میں شریک کر لے اللہ رب العزت یقینا اس کو جنت میں داخل فرمائے گا مگر یہ کہ وہ ایسا گناہ کر جائے جو ناقابل مغفرت ہو یعنی شرک کرے تو پھر مغفرت نہیں ہوگی‘‘۔ یتیم کے ساتھ پیار و محبت شفقت و ہمدردی کا معاملہ کرنا اجر عظیم کے حصول کا اہم ذریعہ ہے اور یہ ایسا عمل ہے جس کو انجام دینے والا قیامت کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قربت میں ہوگا اس اچھے عمل کے لیے نیت بھی اچھی ہونی چاہیے۔
لہذا اگر کوئی شخص یتیموں کی کفالت کی ذمہ داری اس لیے لیتا ہے تاکہ ان کے نام سے بینکوں میں موجود مال و دولت سے فائدہ اٹھا سکے، اپنا قبضہ جما سکے، یا یتیم بچوں کی پرورش کا ڈھونگ رچا کر عام مسلمانوں سے مالی تعاون حاصل کر سکے تو ایسے شخص کو اس اچھے کام پر کسی طرح کا کوئی اجر و ثواب نہیں ملے گا۔ چنانچہ ایک روایت میں میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یتیم کے ساتھ حسن سلوک کرنے پرجواجر ملے گا، بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:’’جس شخص نے محض اللہ کی رضا کی لیے کسی یتیم کے سر پر شفقت سے ہاتھ رکھا توہربال کے بدلہ میں جس کے اوپر سے اس کا ہاتھ گزرا ہو نامہ اعمال میں نیکیاں لکھی جائیں گی اور جس شخص نے اپنے پاس رہنے والی یتیم بچیاں، یتیم بچے کے ساتھ احسان کا معاملہ کیا تو وہ اور میں یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم جنت میں ایک ساتھ ہوں گے۔ (مشکوۃصفحہ 423)
آج کل یتیموں کے ساتھ ظلم و ستم اور حق تلفی کا بازار گرم ہے۔ دنیا کو حاصل کرنے کی خواہش نے انسان کو اندھا کر دیا ہے حتی کہ وہ خونی رشتوں کو بھی بھلا بیٹھا ہے۔ یتیم ٹھوکریں کھاتے پھرتے ہیں، کوئی ان کا پرسان حال نہیں رہتا ان کی جائیداد پر قبضہ کرلیا جاتا ہے جو کہ انتہائی نامناسب کام ہے اس سے بچنا چاہیے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سب گھروں میں باعزت وہ گھر ہے جس میں یتیم کی عزت ہو۔( ترمذی 456جلد 2) عید کے موقع پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یتیم بچے کو پریشان حال دیکھا تو اسے اپنے گھر لے آئے اور فرمایا کیا تو اس بات پر راضی نہیں ہیں کہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم باپ بن جاؤں اور عائشہ تیری ماں بن جائے۔ ان تمام نصوص سے ثابت ہو گیا کہ یتیم کیسے حقوق رکھتا ہے؟ افسوس ہے اس شخص پر جو اپنے چند روزکے نفع کے لیے انہیں ٹھکرا دے۔