اللہ تعالی کی ذات بابرکت تمام جہانوں کا خالق و مالک ہے، اسی رب کے دیے ہوئے رزق پر انسان اپنی زندگی بسر کر رہے ہیں، خُدا نے انسانوں کو اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا مگر اسلام کے نام پر بننے والے ملک پاکستان میں کبھی اسی ذات باری تعالی کی شان گستاخی کی جاتی ہے تو کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں نازیبہ کلمات بکے جاتے ہیں۔
اگر اسی پر اکتفا نہ ہو تو آسمان کے ستاروں کی مانند روشن کردار والے صحابہ اکرام کے بارے نام نہاد پڑھے لکھے طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد مغلظات بکتے نظر آتے ہیں۔ حال ہی میں امر جلیل نامی شخص جو کہ تقریباً سندھی اور اردو کے معروف چینلز کا مہمان ہوتا ہے ،سندھی اور اردو زبان کا مشہور کہانی نویس، نثرنگار، کالم نگار اور ڈراما نویس ہے۔
مزید پڑھیے : بیوی کے پاؤن تلے زمین نکل گئیں آواز ہرگز شناسا نہ تھی البتہ
پاکستان کے دارالخلافہ اسلام آباد میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشنل ٹیکنالوجی کا بانی ڈائریکٹر اور سابقہ وائس چانسلر ہے جو سندھی ٹی وی کے ایک پروگرام میں بڑی جرات کے ساتھ رب العالمین کی شان الوہیت میں گستاخی کرتا ہے۔ جسکا اردو ترجمہ نقل کفر ، کفر نہ باشد کے تحت محض اس لئے یہاں بیان کیا جا رہا ہے تاکہ ہر چھوٹی بڑی حرکت سے باخبر رہنے والے ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور توہین عدالت پر خود سے نوٹس لینے والی عدالتوں کے علم میں آسکے، اور پیمرا کی حقیقت کا پتا بھی چل سکے جو کسی مذہبی عالم کے دلائل پر مبنی مگر جوشیلی تقریر تک چلانے پر ایکشن لیتا ہے مگر الیکٹرونک میڈیا پر سرے عام رب العالمین کی گستاخیوں، صحابہ اکرام کے بارے مغلظات پر خواب خرگوش کے خراٹے لے رہا ہے۔
امر جلیل سندھی زبان میں ٹی وی پروگرام میں کہتا ہے کہ “ایک دفعہ میں نے خدا کو یہ کہہ کر لا جواب کردیا کہ تو نے ایک لاکھ چوبیس ہزار سارے مرد نبی بھیجے۔ ایک بھی عورت کیوں نہیں بھیجی ؟ جواب دینے کے بجائے خدا ادھر اُدھر دیکھنے لگا تو میں نے کہا کہ تجھے ماں اور مامتا کے بارے میں کیا پتا ؟ اس پر خدا نے کہا کہ میرے ساتھ رہ رہ کر تو بھی خدا بننا چاہتا ہے؟
میں نے کہا میں تو بڑا خوش نصیب ہوں کہ خدا نہیں، مجھے تو ماں نے جنا ہے جس کےسبب مجھے عورت کا احساس ہے ، آپ بغیر مامتا کے ہو تو عورت کا احساس کیسا”۔
پھر چار شادیوں پر طنز کرتا ہے اور آئین پاکستان کے ردی و فرسودہ ہونے کی بات کرتا ہے ۔
پھر اس سے بڑھ کر غلیظ الفاظ کہتا ہے کہ ، “دنیا میں جب ہر چیز کا جوڑا ہے تو خدا (چھڑا) غیر شادی شدہ کیوں؟ ایسے کو تو ہم شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں”
کہتا ہے ۔
” خدا بار بار کہتا ہے مانگ مانگ، میں نے کہا خاموش ہوکے بیٹھ اور چیف منسٹر ہونے کی کوشش مت کر، میں نے تجھ سے کوئی ٹھیکہ نہیں لینا ،
مزید امیر جلیل کہتا ہے :
“ایک بار میں منگھو پیر کے پاس ساحل پر مگر مچھ کو دیکھ رہا تھا کہ پھر کہنے لگا مانگ، اس وقت دل کر رہا تھا کہ دھکا دے کر مگرمچھ کے حوالے کردوں “
اور آخر میں اللہ تعالی کو لاجواب کرنے کا دعوی کرتا ہے ، ڈانٹتا ہے اور کئی ایسے الفاظ استعمال کرتا ہے جو لکھنے کی سکت نہیں۔
یہ سارا کفر نقل کرنے کا مقصد صرف ہمارے اداروں کی آنکھیں کھولنا اور اس سے پہلے اس بدبودار ظالم کے خلاف قانونی کاروائی کروانا مطلوب ہے۔ پھر کوئی ممتاذ قادری پیدا ہوگا اور اسے سربازار قتل کر دے گا تو ملحدین کی جانب سے واویلا کیا جائے گا کہ قانون کیوں ہاتھ میں لیا؟
یاد رکھیں کہ رب العالمین کی شان میں گستاخی کرنا انبیاء کرام علیہم السلام و صحابہ کرام علیہم الرضوان کی گستاخی کرنے سے کئی گنا شدید ہے۔ آسیہ ملعونہ نامی خاتون نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں سنگین گستاخی کی جبکہ اس کو ملک سے فرار کروا دیا گیا اور وزیراعظم صاحب بیرون ملک جا کر کریڈٹ لیتے نظر آئے۔
جبکہ 11 اپریل، 2021ء بروز اتوار، رات گیارہ اور بارہ بجے کے درمیان، “ایکسپریس نیوز” نامی ٹی وی چینل پر، “خبردار” نامی ایک پروگرام پیش کیا گیا۔ جس کے میزبان “آفتاب اقبال” تھے۔ اس پروگرام میں کی جانے والی مکالمہ بازی اور دیگر بولے جانے والے الفاظ بھی انہی “آفتاب اقبال” نامی صاحب کے تحریر کردہ تھے۔ اس پروگرام کے ایگزیکٹو پروڈیوسر “سید محسن اقبال”، پروڈیوسر “بلال جاوید” اور ایڈیٹر “ساجد انصاری” تھے۔
اس پروگرام میں میزبان نے پاکستانی عوام کی حالت کو ڈرامائی طور پر پیش کرنے کے لیے چند افراد کو پاکستانی عوام کے مختلف طبقات کے نمائندوں کی حیثیت سے پیش کر کے بتانے کی کوشش کی کہ پاکستانی قوم اورعوام بے حس اور خود غرض ہے۔ یہ افراد آپس میں مکالمہ بازی بھی کرتے ہیں۔ اس مکالمہ بازی کے دوران ایک شخص کا موبائل گر جاتا ہے تو باقی افراد اپنی پریشانیاں بھول کر اس شخص کا گرا ہوا موبائل اٹھانے کے لیے لپکتے اور تلاش کرنے لگتے ہیں۔ اس موقع پر “آفتاب اقبال” نامی میزبان کہتا ہے، “دیکھیے اخلاقی گراوٹ کا عالم یہ ہے کہ اس کا فون گرا ہے اور اپنے سارے دکھ بھول کر صرف ‘مال غنیمت’ سمیٹ رہے ہیں، یہی کچھ کیا تھا انہوں نے جنگ احد کے موقع پر”۔ میزبان کے ان دل آزار اور زہر آلود الفاظ کو سن کر سامنے بیٹھے ہوئے دو مرد اور ایک عورت بھی میزبان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے تائیداً کہتے ہیں “بالکل”۔
ہائے ربّا زمین پھٹ کیوں نہیں جاتی! آسمان ٹوٹ کیوں نہیں جاتا! اسلام کے نام پر لیے گئے ملک کے ٹی وی چینلز سمیت دیگر سطحوں پر آئے روز صحابہ کرامؓ پر اعتراض کیے جاتے ہیں، ان کا تمسخر اڑایا جاتا ہے، صحابہؓ کی توہین و تنقیص کی جاتی ہے۔۔ اور کوئی پوچھنے والا نہیں! قیامِ ریاستِ مدینہ کے دعوے داروں کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی! ریاستِ مدینہ کے خلیفہ سیدنا عمر فاروقؓ تو صحابہؓ بارے نازیبا لفظ کہنے والے کی زبان کاٹنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔
حکومت وقت نے تحریک لبیک پاکستان کے ساتھ معاہدہ کی 20 اپریل تک توسیع کی جس کا اعلان ملک کے وزیر اعظم نے کیا۔جس کے تحت قومی اسمبلی سے بل پاس کروا کر فرانس کا سفیر ملک بدر کیا جائے گا۔ جس پر تاحال عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے علامہ سعد حسین رضوی نے حکومت کو سخت پیغام دیتے ہوئے کہا کہ بدھ کی رات 12 بج کر 1 منٹ پر معاہدہ پورا نہ ہونے کی صورت میں کارکنان لاہور علامہ خادم حسین رضوی کے مزار پر پہنچیں۔ اسکے بعد ناموس رسالت مارچ کا آغاز کیا جائے گا۔ حکومت نے بجائے فرانسیسی گستاخی کا جواب سرکاری سطح پر دینے کے تحریک لبیک کے قائد علامہ سعد حسین رضوی کو گرفتار کر لیا ہے جس کی بناء پر ملکی حالات خراب ہونے اور انارگی پھیلنے کا اندیشہ ہے۔
سوچنے والی بات یہ ہے کہ بجائے ملک میں موجود امر جلیل و آفتاب اقبال جیسے گستاخوں کو لگام ڈالنے کے اور بیرون ملک کی گئی گستاخیوں کی بناء پر فرانسیسی سفر کو نکالنے کے، حکومت ناموس رسالت کے پروانوں کو جیلوں میں ڈال رہی ہے جو کہ کسی بھی غیرت مند مسلمان کو قابل قبول نہیں۔ حکومتی ہٹ دھرمی و مغرب پرستی اس ملک و قوم کے لئے شدید خطرناک ہے۔