ہم کسی کو چانس نہیں دیتے،کیوں کہ ہم سب اپنی ذات کے حصار سے باہر نہیں آپا رہے۔خالق کائنات نے اپنی مخلوق کو بہترین ساخت پر پیدا کیا ہے،جن کے مزاج،عادات ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔
وہ رب کتنا مہربان ہے کہ جو مالک ہے،حاکم ہے،خالق ہے جس کے حضور ہر انسان کو پیش ہونا ہے ہم سب اس کے محتاج ہیں،اس کے غلام ہیں،مگر اس نے انسان کا ایک دوسرے سے مختلف اور ایک حد میں اختیار کا مالک ہونا تسلیم کیا۔
مگر ایک انسان دوسرے انسان کو رعایت دینے پر تیار نہیں ہے۔اپنے مزاج کو دوسرے پر ٹھونسنے کو اپنی فتح سمجھتا ہے،اور اس فتح کے لیے اکثر اوقات وہ ہر طرح کی دھونس اور دھاندلی کا قائل ہوجاتا ہے۔
ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ کوئی بھی شخص کلی طور پر دوسرے کی مرضی کا نمونہ بن جائے ایسا ہونا درست ہوتا تو اللہ ہی انسانوں میں تفاوت پیدا نہ کرتا۔وہ رب کی ذات ہے جس کی کلی اطاعت لازم ہے،وہ سنت رسولؐ ہے جس کی پیروی لازم ہے۔
مگر آقائے دوجہاںؐ کی زندگی کو دل کی آنکھوں سے دیکھیں تو ہر جگہ انسان کے مزاج اس کی سوچ اور پسند کا خیال نظر آئے گا۔ازواج مطہرات کی دل داری کے واقعات ہوں یا صحابہ کرام رضہ کے ساتھ ہنسی مذاق ،آپؐ کی زندگی کے ہر گوشے میں ایک ایسے انسان کی تصویر نظر آتی ہے،جو حلیم ہے،شفیق ہے۔انسان کو انسان سمجھ کر اس کے نقص کو جگہ دینے کی ہمت اپنے اندر رکھتا ہے۔
در حقیقت آقائے دوجہاںؐ کی زندگی جو رہتی دنیا تک کے لیے،انسانوں کے لیے کامل نمونہ قرار دی گئ وہ عالم انسانیت کے لیے رحمت بھی بنائی گئی اور ساتھ تاکید بھی کی گئی کہ یہ تمام انسانوں کے لیے بہترین اسوہ ہے۔
لیکن ہم اس دنیا میں جھوٹی خصوصیت کے قائل ہیں،خصوصیت وہ نہیں جو انسان کی صلاحیتوں کی نشونما کرے بلکہ جو ہماری مرضی کے تابع ہو۔ہماری مرضی کے مطابق چلنے والا شخص ہمارے لیے خاص ہے ورنہ ہم کسی کو انسان مانتے ہی نہیں۔ اپنی مرضی کی خاصیت دیکھتے ہیں،کسی قسم کی کمی گوارا نہیں کرتے۔
ہم خاص بننا چاہتے ہیں،خاص بنانا چاہتے ہیں اور اسی کوشش میں وہ بن جاتے ہیں جو نہیں بننا چاہیے۔آپؐ جو افضل ترین بشر ہیں،آپ اپنے تمام کام خود اپنے ہاتھ سے کر لیتے،آپ کی غذا سادہ،رہن سہن سادہ،کوئی آسائش نہیں،کوئی آرائش نہیں۔طہارت آپؐ کی نفاست ہے،سادگی آپؐ کی کرامت ہے۔
حضرت انس بن مالک رضہ کے ساتھ برتاؤ ہو یا حضرت زید بن حارث کے ساتھ حسن سلوک۔آپؐ کی پوری زندگی گواہ ہے کہ اپنی ذاتی خواہش کو آپؐ نے کسی پر نہیں تھوپا۔
ہم خاص ہیں،کیوں کہ ہمارا ایک اسٹینڈرڈ ہے،ہم خاص ہیں کیوں کہ ہم برانڈڈ کپڑے پہنتے ہیں،ہم خاص ہیں کیوں کہ ہم نوکر چاکر رکھتے ہیں۔وہ خاص ہے کیوں کہ وہ ہمیں کبھی انکار نہیں کرتا،وہ خاص ہے کیوں کہ وہ ہمارا ہر حکم بجا لاتا ہے اب چاہے دل ہی دل میں کتنا کڑھتا ہو۔یا پھر وہ خاص ہے جو ہمیں متاثر کر سکے،جس کے پاس دنیا کی ظاہری شان و شوکت ہو۔
خاص اور عام کی اس جنگ میں ہر خاص بننے کی خواہش رکھنے والا عام بن جاتا ہے اور ہر عام طرز پر چلنے والے کو اللہ درجہ بلند عطا فرماتا ہے۔ہمیں چاہیے کہ تمام لوگوں کی نظر کے نزدیگ اہم بننے کے بجائے اللہ کے نزید اہم بن جائیں۔
تو آئیے آج سے عام بننے کی عملی مشق شروع کریں،وہ بھی خلوص نیت سے۔