طاہرہ آج بہت خوش تھی اس کے گھرمہمان آرہے تھے طاہرہ ،سمن، فائز،سبین، حارث یہ پانچ بہن بھاٸی تھے ان کے گھر خوب چہل پہل تھی سب اپنے چچا چچی اور کزنز کے آنے کاانتظار کر رہے تھے امی کچن میں لگیں تھی ”سمن سمن“امی نے آواز لگاٸی کہ ”چلو کچن میں آٶ اور کچھ میری مدد کرادو“۔ سمن جلدی سے کچن میں آٸی تو امی کے ساتھ کھانے کی تیاری میں مدد کرانے لگی اب سب تیاری ہو گئی۔ اسی وقت ان کے آنے کا وقت ہوگیا۔
ابو ائیرپوٹ جانے کے لیے تیار ہوئے ابو نے گاڑی نکالی حارث نے کہا ”میں بھی ساتھ جاٶں گا“ ابواور حارث ائیر پورٹ جانے کے لیے روانہ ہوئے راستے میں بہت رش تھا ابو بہت پریشان ہوئے اور بولے ”کیسے جلدی پہنچیں کہیں دیر نہ ہو جائے“ خیر اللہ اللہ کر کے ائیرپورٹ پہنچے ابو اور حارث نے دور کھڑے چچا،چچی اور کزنز کو ہاتھ سے اشارہ کیا پھر وہ نزدیک آئے ان کو لے کر گاڑی میں آئے اورسب خوشگوار موڈ میں گھر کی طرف آئے ابو اور حارث گھر پہنچے اورخوشی خوشی آواز لگائی”دیکھو دیکھو کون آیا “ سب خوش آمدید کہنے کے لیے آگے بڑھے سمن اور سبین نے ان کے لیے خوش آمدید کے کارڈ بنائے ہوئے تھے وہ پیش کیے ” واہ واہ بچیوں نے خوب محنت کی“۔ چچا بولے اسی طرح گپ شپ میں شام ہوگئی سب نے چائے پی اور ساتھ کیک سموسے کباب سے لطف اندوز ہوئے باتوں باتوں میں حارث بولا کہیں گھومنے کا پروگرام بناتے ہیں راضیہ ، کرن عاطف سب کزنز یہ سن کر بہت خوش ہوئے ”ہاں ضرور“ سب کورس میں بولے ”ہم پکنک منانے جائیں گے“ پھر سب نے مل کر الہ دین پارک جانے کا پروگرام بنایا اتوار کو جانے کا طے پایا اسی طرح دن گزرتے گئے وہ دن بھی آگیا جب سب نے گھومنے جانا تھا۔
صبح ہوئی جلدی جلدی بریانی بنائی اور چائے تھرماس میں بنا کر رکھی پھر پلیٹیں پیالیاں بریانی کی دیگچی سب چیزیں ٹوکری میں رکھیں اب سب چلنے کو تیار تھے۔ نکلتے وقت فاٸز بولا ”راستے میں چپس بھی لینے ہیں“سب نے کہا ”جی وہ تو ضرور“۔ چچی ،امی راضیہ،کرن طاہرہ کرن سب نے عبایا پہنا سمن ایسے ہی چل دی”عبایا تو پہنو“چچی نے احساس دلایا سمن نے کہا ”ابھی تو میں چھوٹی ہوں“امی بولیں”چادر اوڑھ لے گی ابھی تو یہ چھوٹی ہے “ ”چلو پھر چلتے ہیں“ چچی بولیں سب گاڑی میں بیٹھ گئے راستے میں بوتل اور چپس لیے اور پکنک کے لیے روانہ ہوئے۔
ابھی تھوڑی دور ہی چلے تھے کہ محسوس ہوا کوئی بہت دور سے گاڑی کا تعاقب کر رہا ہے سب بہت حیران ہوئے کہ کون ہے جو ہمارے پیچھے لگا ہے ابو نے گاڑی تیزی سے آگے بڑھائی اور اپنی منزل تک پہنچے جب گاڑی سے اترے تو دو موٹر سوار بھی ساتھ ساتھ اترے ایک لڑکا مسلسل سمن کو گھور رہا تھا سمن نے اپنے آپ کو چادر سے اور چھپایا اور ہاتھ میں جو کڑے نظر آرہے تھے امی کے پیچھے چھپ کر آستین میں چھپائے ”جو کچھ ہے وہ دے دو“ لڑکے نے کہا پیسے موبائل کڑے سب جو ان کے پاس تھے سب ان لڑکوں کو دے دیے سب اتنے ڈرے ہوئے تھے کہ سنبھلنے میں وقت لگا خیر کچھ آگے بڑھے اور پارک کی طرف آئے طاہرہ آگے بڑھی نیچے گھاس کی طرف چٹائے بچھائی اور ٹوکری رکھی سب بیٹھےچچی نے یہ دیکھ کر سب پریشان اور سب کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی ہیں دلاسا دینے لگی کہ ”کوئی بات نہیں ایسا ہو جاتا ہے اللہ ہمیں اورعطا کردے گا جان ہے تو جہان ہے“ سمن رونے لگی ”یہ سب میری وجہ سے ہوا “ امی نے پوچھا ”کیوں تمہاری وجہ سے کیوں ہوا“ سمن بولی ”اس لیے میں نے آپ کی بات نہ مانی عبایا نہ لیا نہ ہی نقاب لیا اگر لے لیتی تو ایسا نہ ہوتا“۔
چچی بولی ”غم نہ کرو آئندہ سے عبایا لینا اور حجاب کا خیال رکھنا اسی میں خیر ہے سادگی میں حسن ہے اس سے کسی کے دل میں ہمارے لیے برا خیال نہیں آتا اور حفاظت ہو جاتی ہے “ سمن کو چچی کی بات سمجھ آگئی باتوں باتوں میں دوپہر کے ٣:00 بج گئے ”اب تو بھوک لگ گئی کچھ کھا لیں“راضیہ بولی سبین نے دسترخوان بھچایا سب نے بسم اللہ پڑھی اور کھانا شروع کیا راضیہ بولی یہ توبہت مزے دار بریانی بنی ہے سب نے کھانا کھا کر ”شکر الحمد للہ“ کہا سب چیزیں سمیٹیں پھر عاطف بولا کہ” اب تھوڑا پول میں جاتے ہیں“ خواتین مردوں کا الگ الگ پول تھا سب وہاں تھوڑی دیر نہاۓ اور خوب مزے کیے اور سب گھر کی طرف روانہ ہوئے ”یہ دن مجھے کبھی نہیں بھولے گا “ سبین نے کہا۔