ایک مشہور قول ہے:’’ خوب صورت عورت آنکھوں کو اور خوب سیرت عورت دل کو اچھی لگتی ہے۔‘‘
اسی طرح میرے دل کو بھی ایک عورت اچھی لگی جن سے بات کر کے دلی سکون میسر آتا ہے اور ان کا انداز بیان دل کو چھو جاتا ہے۔ جو اردو ادب کی خدمت میں کوشاں ہیں لیکن خالصتاً اردو کی خدمت میں نہ کہ اپنا نام پیدا کرنے کے لیے۔ان کی اردو سے اس خالص محبت کو دیکھتے ہوئے ان کو اپنی تحریر کا موضوع بنایا۔
اس معزز خاتون کا نام ڈاکٹر صائمہ نذیر صاحبہ ہے جو کہ ملک کی معروف درس گاہ( نمل)نیشنل یونی ورسٹی آف ماڈرن لینگویجز،اسلام آباد میں بہ طور اسسٹنٹ پروفیسر اردوخدمات سر انجام دے رہی ہیں۔آپ پانچ جولائی۱۹۸۳ء کوراول پنڈی میں پیدا ہوئیں۔ آپ کے والد کا نام نذیر احمداعوان جب کہ والدہ کا نام غلام زینب ہے۔صائمہ نذیر صاحبہ نے ابتدائی تعلیم گورنمنٹ ایف جی گرلزا سکول طارق آباد راولپنڈی سے حاصل کی۔ ایف۔ اے اور بی۔ اے کے امتحانات گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج کشمیر روڈ صدر، راولپنڈی سے پاس کیے۔ اردو زبان سے محبت کے باعث ماسٹر میں مضمون، اردو کا انتخاب کیا اور نمل ،اسلام آباد سے ۲۰۰۵ء میں ایم ۔اے اردو کی ڈگری حاصل کی۔ ایم اے کا تحقیقی مقالہ ”زہیر کنجائی شخصیت اور شاعری ” ڈاکٹر گوہر نوشاہی کی نگرانی میں مکمل کیا(یہ مقالہ کتابی صورت میں شائع ہو چکا ہے)۔ ایم۔ اے کے بعد ڈاکٹر اے کیو خان کالج سفاری والا، راول پنڈی میں تدریس کے فرائض سر انجام دیے۔ اسی دوران میں ایم فل لیڈنگ ٹو پی ایچ ڈی میں داخلہ لیا۔
آپ انتہائی محنتی طالبہ تھیں اور زندگی میں کام یابی کی سیڑھیاں چڑھنا جانتی تھیں تاہم اگست ۲۰۰۷ء میں نمل میںبہ طور لیکچرار ملازمت کا آغاز کیا۔ ۲۰۱۴ء میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ ڈاکٹریٹ کے لیے تحقیقی مقالہ ”پاکستان اردو غزل کے موضوعات کا تجزیاتی مطالعہ۱۹۶۰ء تا حال ” کے موضوع سے ڈاکٹر عابد حسین سیال کی نگرانی میں مکمل کیا۔ پی ایچ ڈی کی تکمیل کے بعد بہ طور اسسٹنٹ پروفیسر ترقی پائی۔ اس وقت ایم ۔اے ،ایم۔فل اور پی۔ ایچ۔ ڈی کے کورسز کے لیے بہ طور کوآرڈینیٹر فرائض سرانجام دے رہی ہیں۔ اردو کو چاہتی ہیں ان کی چاہت کا اندازہ اسی بات سے لیا جاسکتا ہے کہ انھوں نے مرتے دم تک اردو کی تعلیم و تدریس کا سلسلہ جاری رکھنے کا عہد کر رکھا ہے۔ ایک محنتی طالبہ جو اب سیکڑوں طلبہ کے علم کا روشن چراغ ہیں اور چاہتی ہیں کہ علم کی روشنی گھر گھر پہنچے اور ہر ذہن اس سے منور ہو۔ کسی بھی قسم کا مشورہ بہت شائستگی سے دیتی ہیں انتہائی مخلص اور ہر دل عزیز شخصیت کی مالکہ ہیں۔
آپ کی ادبی خدمات نا قابل فراموش ہیں۔ان کی خدمت کے عوض انھیں۲۰۱۳ ء میں شریف کنجاہی ایوارڈ فار لٹریچر سے نوازا گیا۔
ڈاکٹر صائمہ نذیر صاحبہ کے متعلق ان کے ایک شاگرد سید کاشف علی شاہ بتاتے ہیں کہ ”بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کی اپنی ایک نمایاں شخصیت ہوتی ہے۔ جو متاثر کن بھی ہوتی ہے اور وقار و متانت کے ساتھ اپنی موجودگی کا قوی احساس بھی دلاتی ہے۔ دیگر تمام شعبوں کی نسبت معلم کے لیے یہ خوبی بہت ضروری ہے کہ فیضانِ نظر مکتبی تعلیم کے ساتھ ہو تو ہی طلبہ کی کردار سازی ممکن ہو سکتی ہے۔ایسی ہی ایک شخصیت ڈاکٹر صائمہ نذیر ہیں۔ نمل میں ایم ۔فل اردو کی سطح پر ان سے ترجمہ نگار کا فن مضمون پڑھنے کا موقع ملااس سطح کی تعلیم میں استاد اور شاگرد کا تعلق بنیادی تعلیم سے یک سر مختلف ہوتا ہے یہاں ایک فکری سطح کا تعلق پیدا ہوتا ہے جس میں معلم کی شخصیت اس کے فکری و تحقیقی روہے ۔بہت زیادہ اثر انداز ہوتے ہیں۔ڈاکٹر صاحبہ شفیق اور بہت زیادہ معاون ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اضافی خوبی یہ رکھتی ہیں کہ وہ رٹے رٹائے یا طے شدہ نصابی بیانیوں کی بہ جائے اسکالرز کو فکری آزادی دیتی ہیںجو تحقیقی تعلیم کے لیے بہت ضروری ہے۔جدید عہد کے تقاضوں کے پیشِ نظر مناسب راہنمائی کے بعد اسکالرز کو عملی مشق اور نئے نئے فکری تجربوں پر مائل کرتے ہوئے تحقیق کی لاگ لگانا ان کی معلمانہ شخصیت کا خاصا ہے۔ تعلیمی تقاضوں سے قطع نظر ان کی شخصیت کا اپنا وقار اور رچاؤ ہے۔ جو اپنی انفرادیت کا بھرپور احساس رکھتا ہے۔گفتگو میں شائستہ پن ٹھہراو، لہجے میں نکھار، کسی بھی کیفیت کی ادائی میں بھرپور ساتھ دیتا چہرہ اور ہاتھوں کے اشارے ان کی عام گفتگو کو بھی مسحور کن بناتے ہیں۔ کسی بھی وقت آپ کو کوئی علمی معاونت درکار ہو بلا جھجھک جائیں، انھیں مدد کے لیے تیار پائیں گے۔طالب علمانہ جسارتوں پر کبھی ان کے چہرے پر ناگواری کا تاثر تک نہیں دیکھا۔وہ بہ طور شخص، شخصیت اور معلم اسکالرز کے لیے ہمیشہ لائق تقلید رہی ہیں۔”
جیسا کہ اوپر بیان ہوا ڈاکٹر صاحبہ کئی برس سے تدریس سے وابستہ ہیں ان کے کئی شاگرد عملی میدان میں نام کما چکے ہیں۔اسی طرح سے ان کے ایک شاگردپروفیسر فرہاد احمد فگارؔ صاحب بھی ہیں۔جو ادبی دنیا میں محقق اور کالم نگار کی حیثیت سے خاصا نام کما چکے ہیں۔فگارؔ صاحب میڈم صائمہ کے حوالے سے کچھ یوں رائے پیش کرتے ہیں: ’’ڈاکٹر صائمہ نذیر سے اس وقت شناسائی ہوئی جب ۲۰۱۲ء میں ایم۔ اے اردو کرنے نمل گیا۔پہلے سمسٹر میں آپ نے کلاسیکی شاعری پڑھائی۔ آپ کی تدریس کا انداز نہایت عمدہ ہے۔جس موضوع پر لیکچر ہو اس موضوع پر مکمل معلومات فراہم کرتیں۔بعدازاں ایم۔ فل میں ادبی صحافت بھی ڈاکٹر صاحبہ نے پڑھائی اس وقت یوں لگا جیسے آپ کا میدان صحافت ہے۔یقینا یہ ایک استاد کی کام یابی ہے۔آپ محنتی استاد ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت زندہ دل شخصیت کی حامل ہیں۔ہنسی مذاق اور چہل سے خود بھی محظوظ ہوتی ہیں اور دوسری کو بھی محظوظ کرتی ہیں۔آپ کی موجودگی میں محفل زعفران زار ہو جاتی ہے۔شعبۂ اردو کے زیرِ اہتمام کئی ادبی تقاریب منعقد کروانے کا سہرا ڈاکٹر صاحبہ کے سر ہے۔ نمل میں کئی میلاد النبی کی محافل آپ کی زیر نگرانی منعقد ہوئیں ان محافل میں آپ نے پرسوز ترنم سے نعوت پڑھ کر محفل کو مزید خوب صورت بنا دیا۔ صائمہ نذیر نام ہے محنت کا، محبت کا ،مسکراہٹ کا اور زندہ دلی کا۔ طلبہ سے شدید محبت رکھنے کی وجہ سے طلبہ بھی آپ سے ٹوٹ کر محبت کرتے ہیں۔ انسانیت کو آپ سب سے پہلے مانتی ہیں۔ آپ کو کبھی کسی کی برائی کرتے نہیں دیکھا۔ میں سمجھتا ہوں قحط الرجال کے اس دور میں ڈاکٹر صاحبہ امید کی وہ کرن ہیں جن کا مذہب انسانیت ہے اور جن کی محبت انسان۔ حضرت میر تقی میرؔ کا ایک شعر آپ کے نام:
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں‘‘
نمل کی ایک ا سکالر عائشہ بیگم ان کے متعلق کچھ یوں بتاتی ہیں کہ”دنیامیں ایسی شخصیات بھی ہیں جن کو رب تعالیٰ نے اخلاق حمیدہ اور خصائل چنیدہ سے نوازا ہے ۔جن کی ہر خوبی عظمت و رفعت کی آئینہ دار ہے۔ انھی برگزیدہ اور ہر دل عزیز ہستیوں میں ڈاکٹر صائمہ نذیر کا نام آتا ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ میرے لیے ایسی ہیں جیسے آسمان پر چاند اور ستارے جو رات کی تاریکی میں روشنی فراہم کرتے ہیں۔ ان کی ہمہ جہت شخصیت نے نہ جانے کتنے دل علم و آگہی کے دیپوں سے منور کیے۔ ڈاکٹر صاحبہ نے پی ۔ایچ۔ ڈی لیول پر مجھے پڑھایا اس کے علاوہ ان کے ساتھ پی۔ ایچ۔ ڈی کا تحقیقی مقالہ تحریر کرنے کی بھی سعادت حاصل ہوئی۔ ڈاکٹر صاحبہ ایک مہربان، ہم درد، پرخلوص اور سرمایہ علم و ادب ہیں۔ مجھے ان کی وسعت نظری،شفقت آمیز لہجہ اور حوصلہ افَزائی نہ ملتی تو سنگ میل عبور کرنا نا ممکن تھا ۔مقالے کی تکمیل میں ان کا بہت بڑا کردار ہے انتہائی مصروفیت کے باعث بھی مجھے اپنا قیمتی وقت دیا اور میری غلطیوں کوتاہیوں کو نہ صرف درگزر کیا بلکہ ان کی اصلاح بھی کی۔ اگر میں ان کے احسانات کو بیان کرنا بھی چاہوں تو میرے پاس الفاظ نہیں سوائے اس کے کہ ان کا شکریہ ادا کر سکوں۔ ”اللہ رب العزت انھیں جزائے خیر عطا فرمائے (آمین)۔
ڈاکٹر صائمہ نذیر کے متعلق لوگوں کی آرا ان کے اعلیٰ اخلاق اور اعلا ظرفی کی گواہی ہیں۔
ان کے اچھے انسان اور اچھے استاد ہونے پر کچھ تحفظات باقی نہ رہے۔ انھوں نے اپنی آدھی زندگی اردو زبان کے لیے وقف کردی۔ وہ جب لکھتی ہیں تو ان کا لفظ لفظ مہکتا ہے ان کا حرف حرف با وزن ہوتاہے۔ ان کے ایک اچھا لکھاری ہونے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے شاگرد بھی آج بہت اچھے لکھاری ہیں۔ ان کی گفتگو شائستہ انداز مہذب اور مزاج سادہ ہیں۔ سادہ زبان سادہ لوح روح جن سے ملاقات ہو جائے تو بار بار ملنے کو دل کرے ایک طے ایسی عورت جن سے بات ہو جائے تو بات کرتے جانے کو دل کرے۔ایک عورت جن کی مثال طلبہ کے لیے تحریک کا کام کرے۔ ایک عورت جن کی کام یابی دیکھ کر ہر لڑکی رشک کرے۔ ہر لڑکی کا خواب ہیں صائمہ نذیر
ایک روشن چراغ ہیں صائمہ نذیر۔ ان کی تعریف و توصیف کے لائق الفاظ نہیں ملتے۔
آخر میں ان کے لیے یہ شعر کہوں گی
تو شاہین ہے پرواز ہے کام تیرا
تیرے آگے آسمان اور بھی ہیں