درخت اور انسان کا تعلق اتنا ہی پرانا ہے جتنا کہ انسانی تاریخ۔ درخت کے لفظی معنی ہیں:
د سے دوا، ر سے رحمت، خ سے خوراک اور ت سے توانائی کے ہیں۔
یعنی ہمیں درختوں سے علاج معالجہ کے لیے ادویات، رحمتیں و برکتیں، کھانے کے لیے خوراک و غذا اور جسمانی و ذہنی توانائیاں اور قوتیں حاصل ہوتی ہیں۔ یہ سب کچھ ہماری زندگی اور بقا کے لیے نہایت اہم اور مفید ہیں۔
شجر کاری کے معنی ہیں “درختوں کے لیے کام کرنا” یعنی انہیں اگانا، ان کی دیکھ بھال کرنا اور انہیں انسانوں اور دیگر جانداروں کے لیے فائدہ مند بنانے کے غرض سے مختلف اقدامات کرنا۔
زندگی کی ابتدا میں انسان نے سب سے پہلا قدم جب روئے زمین پر رکھا تو درختوں نے لہلہا کر، نباتات نے جھوم کر اور برگ و گل نے مسکرا کر اس کا پرجوش استقبال کیا تھا۔
اس سے قبل جنت میں بھی انسان کو درختوں اور ان کے پھلوں سے استفادے کا موقع ملا تھا اور ایک ممنوعہ درخت کا پھل کھانے کی بدولت ہی وہ جنت بدر کرکے زمین پر بھیج دیا گیا تھا۔
دنیا میں یہی درخت اس کی غذا کا سامان بنے اور برگ و گل اس کے درد کا درماں بنے۔ قدرت فیاض نے روئے زمین کے چپے چپے پر نباتات پیدا کرکے انسان کی غذا اور دوا کا اہتمام کر دیا۔ اللہ تعالی نے درختوں کو اس کے زرائع و وسائل میں ایک اہم درجہ دے دیا اور بے شمار مزید فوائد انسان کے لیے درخت و شجر میں رکھ دیے۔
جب خالق کائنات نے بنی نوع انسان کو پیدا کیا تو ساتھ ہی اس کے لیے تمام سامان زیست بھی مہیا کر دیا جیسا کہ کلام الٰہی میں ارشاد ربانی تعالیٰ ہےکہ:
ترجمہ: “اور ہم نے اس دنیا میں تمہارے لئے گزران اور معیشت کا پورا بندوبست کردیا ہے۔” (سورۃ الاعراف:10 )
لیکن اس کے ساتھ ساتھ اللہ رب العزت نے ایک ضروری انتباہ بھی کردیا کہ
ترجمہ: “(ہم نے تمہارے لیے یہاں ہر چیز ایک توازن اور اعتدال کے ساتھ پیدا کی ہے)، تم اس میزان میں بگاڑ مت پیدا کرنا۔” (سورۃ الرحمٰن:8)
قرآن پاک میں دیگر کئی مقامات پر بھی جابجا اللہ تعالی نے درختوں کا ذکر کرکے اس کی اہمیت کو مزید واضح کیا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ
ترجمہ: ” اور ہم نے نے ہر نوع کی نباتات ٹھیک ٹھیک نپی تلی مقدار کے ساتھ اُگائیں۔” (سورۃ الحجر 15: 19)
قرآن کریم میں مختلف حوالوں سے شجر (درخت) اور نباتات کا تذکرہ بیان ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایک مقام پر نباتات و اشجار کو اپنی رحمت قرار دیتے ہوئے بیان فرمایا ہے کہ :
“وہی تمہارے فائدے کے لیے آسمان سے پانی برساتا ہے، جسے تم پیتے بھی ہو اور اسی سے اُگے ہوئے درختوں سے تم اپنے جانوروں کو چراتے بھی ہو۔ اسی سے وہ تمھارے لیے کھیتی اور زیتون اور کھجور اور انگور اور ہر قسم کے پھل اُگاتا ہے۔ بے شک ان لوگوں کے لیے تو اس میں بڑی نشانی ہے جو غور و فکر کرتے ہیں۔” ( سورۃ النحل 16 : 10, 11)
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں نسل اور کھیتی باڑی کو تباہ و برباد کرنے والے فسادی قسم کے لوگوں کی سخت مذمت اور تنبیہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ :
ترجمہ: “جب وہ لوٹ کرجاتا ہے تو زمین میں فساد پھیلانے کی اورکھیتی اور نسل کی بربادی کی کوشش میں لگا رہتا ہے اور اللہ تعالی فساد کو ناپسند کرتا ہے۔” (سورۃ البقرہ 2 : 205)
جب راستے میں کوئی بھی سایہ نہ پائے گا
یہ آخری درخت بہت یاد آئے گا
احادیث مبارکہ میں بھی درختوں کی کاشت اور دیکھ بھال کے حوالے سے واضح اور مفصل احکامات بیان کیے گئے ہیں۔
زراعت ایک افضل پیشہ ہے جو اختیار کرنا پسندیدہ ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے حضور اکرمﷺ کا ارشاد نقل کیا ہے کہ :
ترجمہ: “کوئی مسلمان جو درخت لگائے یا زراعت کرے، پھر اس میں سے کوئی انسان یا پرندہ یا کوئی جانور کھالے تو یہ بھی اس کے لیے صدقہ ہے۔” (جامع ترمذي :1382) اور صحیح مسلم کی روایت میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ
ترجمہ: “اس میں سے کچھ چوری ہو جائے تو وہ بھی اس کے لیے صدقہ شمار ہوتا ہے۔”
حلال رزق کا مطلب کسان سے پوچھو
پسینہ بن کے بدن سے لہو نکلتا ہے
شجر کاری کی اہمیت کا مزید اندازہ مندرجہ بالا حدیث سے بھی ہوتا ہے جس میں نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ
“اگر قیامت قائم ہورہی ہو اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں قلم ہو اور وہ اس بات پر قادر ہوکہ قیامت قائم ہونے سے پہلے وہ اسے لگا لے گا تو وی ضرور لگائے ۔ (مسند احمد: 12902 )
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے ایک جرنیل کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ:
“پھل دار درختوں کوکبھی مت کاٹنا۔”
اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے بھی اپنے گورنروں کو حکم دیا تھا کہ”مفتوحہ علاقوں میں زراعت کے ساتھ ساتھ شجرکاری کی جائے۔”
مسلمانوں نے اپنی تاریخ میں ہمیشہ اپنے علاقوں میں درختوں کے وجود، نباتات کی کاشت کاری اوران کی بقا پر خصوصی توجہ دی ہے۔