ہم انسان دوسرے کو اسکی عادات و اطوار سے ہی جانتے ہیں۔ مطالعہ بہت خوبصورت عادت ہے اس عادت سے مشاہدہ اور سیکھنے کا سلسلہ کبھی نہیں رکتا۔ہم دیکھتے آئیں ہیں کہ آباءاجداد کی عادات وراثت میں منتقل ہوتیں ہیں اب جب طے ہوا کہ یہ موروثی عادت ہے تو جنھیں یہ ورثے میں ملی ہے وہ باکمال نہیں اور جنھیں نہیں ملی وہ بے قصور ہوئے۔
قارئین اگر مطالعہ آپکی موروثی عادت اور شوق نہیں ہے تو اسے اپنا شوق، عادت بنائیں تاکہ آپ کی اولاد کو یہ ورثے میں ملے اچھی عادت ہمیشہ کوشش کر کے اپنانی پڑتیں ہیں۔
بذات خود مطالعاتی عادت کا بھرپور فائدہ لاک ڈاؤن میں ہوا جب کہ انسانی روابط تقریباً ختم تھے ہم سماجی طور پر تنہا ہو کر رہ گئے تھے لیکن اس عادت نے غم اداسی کا بہترین علاج کیا طبعاً زندہ، بیدار رکھا تنہائی سے پیدا ہونے والی وحشت دیوانگی کی نمو کو نہ صرف روکے رکھا بلکہ شفیق الرحمن،مشتاق احمد یوسفی،پطرس بخاری ،انشاء جی کے ساتھ قہقوں کے دور چلتے رہے لطائف طنزومزاح پر مبنی کتابیں خوش کرتیں اور ہنساتی رہیں۔ پچھلے زمانے کی تاریخ کو بھی جانا مستنصر حسین تارڑ،ڈاکٹر ہما اقبال،جاوید دانش کے سفر ناموں کے ذریعے مفت اور آسانی سے ایسی جگہیں گھوم لیں جنھیں گھومنے کے لیے خوب پیسے درکار تھے۔
اسلامک لٹریچر سے دین کی سمجھ بوجھ لی وزنی دلیلیں سمیٹیں تو المیہ داستانوں نے رلایا افسانہ ناول میں ڈوبی تو شاعری کی کتاب نے ورطہءحیرت میں ڈالا مترجم کی مہربانی اڑن کھٹولے میں بٹھا کر ہر دور میں لے گئ دنیا کے کسی بھی حصے کا تعارف گھر بیٹھے ہو گیا بہت سی انجان اقوام کی معاشرت سے حظ اٹھایا مختصر یہ کہ کتاب کی رفاقت میں ہر احساس تھا سوائے احساس تنہائی کے۔ اچھی کتاب تنہا کرتی ہے نہ ہی مایوس ہونے دیتی ہے بلکہ آپ کی طبیعت کو پھول کی طرح ہلکا پھلکا کر دے گی اتنی فراغت کے ساتھ مطالعے نے ہر دن نئے پن کا احساس دیا۔
مولانا مودودی رحمتہ الله علیہ فرماتے ہیں !
مطالعے سے بڑے بڑے مسائل حیات چند فقروں میں حل ہو جاتے ہیں۔
ایک اور جگہ فرمایاکہ آپ دنیا کی امامت کا سوچ بھی نہیں سکتے جب تک کہ علم و تحقیق کے امام نہ بن جائیں۔
والدین و استاد مطالعے کی عادت ضرور ڈالیں اپنے بچپن سے میں نے اردگرد کا ماحول مطالعے کے لیے ہموار پایا والد صاحب کا معمول تھا کہ سونے سے پہلے کتاب کا مطالعہ ضرور کرتے شاپنگ پر گئے تو کتاب لازمی خریدی کسی کو تحفہء دیا تو کتاب کا دیا کسی نے کتابی صورت میں تحفہء دیا تو دل وجان سے پسند کیا والد کی دیکھا دیکھی ہم نے بھی ساتھیوں کو کتابیں تحفتاً دیں چند کے علاوہ تقریباً کے چہرے پر بارہ بجتے دیکھے آج کی نسل کا المیہ ہے کہ کتاب سے دوستی رکھنے کے بجائے دشمنی پال کر مطالعے جیسی خوبصورت عادت سے دور ہے یہ نسل اگلی نسل کو وراثت میں مطالعے کی عادت دیتی نظر نہیں آتی یہی وجہ ہے کہ اس جنریشن کے پاس سوچنے کے لیے بہت کم باتیں اور بولنے کے لیے بالکل بھی نہیں ہیں۔
طالب علم خصوصا اگر علمی معراج پانا چاہتے ہیں تو کتابوں کو وقت دیں خیالات بلند ہونگے سوچوں میں وسعت اور خوبصورتی پیدا ہوگی دل و دماغ علمی خزینہ بن جائیں گے مطالعہ کتب سے آپ جانیں گے کہ آپکا شمار روئے زمین کی اشرافیہ میں ہے اندر کی آنکھ کھل جائے گی وہی نہیں دیکھیں گے جو روشنی ظاہر کرتی ہے بلکہ وہ بھی دیکھیں گے جو بظاہر نظر نہیں آتا ہے یعنی حقیقی دید و بینائی کی قابلیت مل جائے گی کتابوں سے آپ جانیں گے کہ جس چیز کا علم نہیں وہاں بحث نہیں کرنی جس راستے کا علم نہیں وہاں سفر نہیں کرنا کتابیں آپ کو گفتگو کے آداب سکھاتی ہیں کہ آپ نے کیا کہنا ہے کب کہنا ہے کب خاموش رہنا ہے کتابوں سے ہم جانیں گے کہ ہم کچھ نہیں جانتے علم و مطالعہ ہماری لا علمی کو بتدریج جاننے کا نام ہے یہ عادت آپکی شخصیت میں وہ نکھار لائے گی جو قیمتی لباس نہیں لاسکتا غور و فکر اور مشاہدے کی عادت بنے گی مشاہدے کے نتائج کے بعد ہی اصل علم حاصل کر سکتے ہیں
امام بخاریؒ نے فرمایا!
یاداشت کے لیے دو کام بہت مفید ہیں
ایک آدمی کی علم کے لیے بھوک اور شوق و لگن دوسرا کثرت مطالعہ
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا میں پہلی پہلی مرتبہ اک نئی تحریک پیش کی تھی وہ تھی پڑھا لکھا معاشرہ خود اللہ نے احکام و فرامین کو کتابی شکل میں اتارا اسی کتاب میں ورق اور قلم کی قسم کھائی اور اسی کتاب کے مطالعے نے انسانوں کو تاریکیوں سے نکالا اور بدل کر رکھ دیا ۔
کتابیں خیالات بدلنے معیار زندگی بہتر بنانے اور جینے کا ڈھب سکھاتی ہیں اپنی اقدار سے آشنائی دلاتی ہیں کچھ بننے میں مدد دیتی ہیں۔ لکھنے کے شوقین حضرات کے لیے بھی یہی مشورہ دیا جاتا کہ اتنا پڑھو اتنا پڑھو کہ ابلنے لگو اسکے بعد لکھو تو مصنف بننے کے لیے عالم استاد اتالیق مدرس واعظ بننے کے لیے مطالعہ ازحد ضروری ہے بغیر علم کے جو کچھ بھی لکھا جائے گا وہ بے علمی کا اشتہار نظر آئے گا اور مدیر صاحب آپ کی تحریر نا قابل اشاعت کہہ کر ردی کی ٹوکری میں ڈال دیں گے۔ اپنی کم علمی کی وجہ سے یہ دکھ مابدولت کو بھی سہنا پڑا مدیر صاحب کی نظر کرم کو ترستا ہوا حال دل کچھ یوں ہے ۔
اپنا آپ مٹا ڈالا اس بے کار خواہش میں
میرا ذکر کتابوں میں ہو میرا ذکر رسالوں میں
اس عادت کو غیر ضروری جان کر خود اپنے علمی حصول میں رکاوٹ نہ بنیں۔ مطالعہ تو ہے ہی ضروری ساتھ اپنا ذوق کتب بھی اچھا کریں اپنے ذوق کا معیار بڑھائیں کیونکہ ذوق کتب اچھا نہیں تو آپکے علمی نتائج قطعا موثر نہیں ہونگے۔ مطالعہ کے کچھ شوقین طلبہ و طالبات سے سوال کیا کہ آپ کے پسندیدہ مصنف کون تو مخصوص دو تین مشہور ناولز رائٹر کے نام لیے گئے بے شک فلاں فلاں اچھے مصنف مگر ذائقے بدلتے رہیں مختلف مصنفین کی تحریریں پڑھ کر موازنہ تقابلہ کر کے مبصر بن سکے گے خود میرے پسندیدہ مصنفین ہر دور میں مختلف رہے ۔ناولز کے علاوہ بھی ہر طرح کا معیاری لٹریچر پڑھیں. اپنے ذوق طبع کا بھی اندازہ ہوسکے گا آجکل میرے دماغ پر طنز و مزاح اور سفرنامے چڑھے ہیں۔