اکی اور گائی جاپانی الفاظ ہیں،اکی کا مطلب ہے کہ چاہنا اور گائی کا مطلب ہے زندگی اصطلاح میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ اچھی اور خوشگوار زندگی گزارنے کا گر یا فارمولا۔
جاپان دنیا کے لئے مثال ہے یہ وہ ملک ہے جس کا ایٹم بم بھی کچھ بگاڑ نہ سکے اور آج اس کا بدترین دشمن امریکہ بھی اس کی ترقی کا معترف ہے۔ وہاں کے لوگ بہت محنتی ہیں کام کو ہمیشہ جذبے کے ساتھ کرتے ہیں اوراکی گائی فارمولا ہے جس پر عمل کر کے آپ بھی ایک خوشگوار زندگی گزار سکتے ہیں۔
انسان اپنی ضروریات کو پورا کرنے اور اپنے آپ کو مصروف رکھنے کے لیے کوئی نہ کوئی شعبہ ضرور اختیار کرتا ہے لیکن اگر وہ شعبہ اس کے مزاج سے مطابقت نہ رکھتا ہو تو جلد ہی وہ یکسانیت اور اکتاہٹ کا شکار ہوجاتا ہے اور نوبت یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ صبح بستر سے اٹھنے تک کا دل نہیں کرتا مذکورہ بالا جاپانی فارمولا آپ کو یہی سکھاتا ہے کہ آپ کے کام میں چار بنیادی عناصرضرور موجود ہوں ہمارے اساتذہ، علما ،والدین اور دور حاضر کے پبلک اسپیکرز جو کہ بچوں کو رہنمائی فراہم کرتے ہیں ان کے لیے بھی بہت کارآمد ہے۔
محبت: جو کام آپ نے اپنے لئے منتخب کیا ہو اس سے آپ کو لگاؤ ہو۔ آپ کو وہ کام کرنے میں مزا آئے اور وہ آپ کو وقت سے آزاد کر دے ۔ اس کے برعکس اگر دفتر پہنچتے ہیں آپ کی نظر گھڑی پر ہے اور آپ چھٹی کے وقت کا انتظار کر رہے ہیں تو جلد ہی آپ اس کام سے بیزار ہوجائیں گے اور آپ کی ترقی کی رفتار بھی رک جائے گی۔
ڈاکٹر یونس بٹ کو کون نہیں جانتا آپ مشہور مزاح نگار ہیں ۔ وہ ایک کامیاب ڈاکٹر تھے لیکن انھوں نے اس کام خیر آباد کیا اور ٹیلی ویژن انڈسٹری میں بطور لکھاری شامل ہوئے ، اپنے منفرد انداز کی بنا پر پوری دنیا میں شہرت حاصل کی ۔ وہ خود اپنے بارے میں بتاتے ہیں کہ بطور ڈاکٹر وہ اکتاہٹ کا شکار ہو جاتے تھے اور بطور مصنف وہ کئی کئی دن مسلسل کام کرتے رہتے ہیں نہ صرف اپنے کام سے لطف اندوز ہوتے ہیں بلکہ ان کا کام ان کو زماں اور مکاں سے بھی آزاد کردیتا ہیں۔
اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ڈاکٹر یونس یہ جرات مندانہ فیصلہ نہ کرتے اور ڈاکٹر کے طور پر ہی کام کرتے رہتے تو کیا وہ اس حد تک کامیاب ہوسکتے جواب میں آپ پر چھوڑتا ہوں اس لیے شعبہ وہ منتخب کیجے جس سے آپ کو لگاؤ ہو۔
ضرورت: جو کام آپ نے اختیار کیا ہے وہ معاشرے کی ضرورت بھی ہو تعلیم کا پھیلاؤ ،غربت کا خاتمہ ، جدید ٹیکنالوجی کو متعارف کروانا یہ نہ ہو کہ اونی کپڑے آپ گرمی اور گولے سردی میں بیچ رہے ہوں ۔
قتل شفائی اس موضوع پر کہتے ہیں
جا میرے بچے اس مجمع گر کو دیکھ کرآ
دھوپ میں جس نے سجائے ہیں کھلونے موم کے
یہ کہیں وہ تو نہیں وہ جو پچھلی سردیوں میں بیچتا تھا گولے برف کے!
معاوضہ : تیسرا اہم عنصر یہ بھی ہے کہ آپ کے کام سے آپ کو مناسب معاوضہ بھی ملتا ہے تاکہ آپ اس کام کو مزید سے مزید وقت بھی دے سکیں اور آپ کی بنیادی ضروریات بھی پوری ہوتی رہیں۔ ایسا نہ ہو کہ نجی شعبے میں معمولی تنخواہوں پر پڑھانے والے اساتذہ کیطرح خواہش کے باوجود بھی آپ اپنے شعبے کو مکمل وقت نہ دیں سکیں اور گھر کے نظام کو چلانے کے لیے آپ ٹیوشن پڑھاتے رہیں اور اپ کو بچے کی تعلیم سے زیادہ اپنی فیس کی فکر ہو۔
ماہر: چوتھا اور اہم عنصر یہ ہے کہ آپ اس شعبے کے ماہر ہوں اس میں آنے والی نئی ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ ہوں۔ اگر ایسا نہیں ہوگا تو بھی آپ اپنے شعبے کے کمال کو حاصل نہیں کر سکیں گے
ایک اہم سوال جواب تک آپ کے ذہن میں جنم لے چکا ہوں گا۔ کیا آغاز میں تو یہ چاروں ممکن ہوں گے ؟ آغاز سفر میں صرف شوق اور ضرورت ہوں گے ،اس کو مشن کہتے ہیں ،پھر آپ محنت کرکے اپنے کام کو ایک قابل معاوضہ کام بنائیں گے اور آہستہ آہستہ اس شعبے کے ماہر بن جائیں گے۔
اگر آپ کو کام سے محبت بھی ہے اور آپ ماہر بھی ہیں تو یہ آپ کا پیشہ ہے پھر اس فارمولے کے تحت آپ کو بہتر مارکیٹنگ تکنیک کے ذریعے ایسے لوگوں تک پہنچنا ہے جن کی آپ کا کام ضرورت ہو اس سے آپ کو معاوضہ بھی مل جائے گا۔
اور اگر فرض کریں کہ آپ ماہر بھی ہیں اور معاوضہ بھی اچھا مل رہا ہے تو یہ آپ کا شعبہ زندگی ہے ۔ لیکن اکثر لوگ اس میں اکتاہٹ کا شکار ہو جاتے ہیں، جیسے اساتذہ ایک ہی مضمون ، ایک ہی کتاب ایک جیسے نوٹس پڑھاتے ہیں تو وہ یکسانیت کا شکار ہو جاتے ہیں ،ایسے لوگ اپنے معاشرے میں دیکھے ہونگے جو اچھی تنخواہ ملنے کے باوجود استعفیٰ دے دیتے ہیں بعد میں پچھتاتے ہیں، ان لوگوں کو چاہیے کہ وہ اپنے شعبے میں جدت اختیار کریں اور جن لوگوں کی ضرورت ہے ان کے لئے آسانیاں پیدا کریں ، جیسے کمزور طالب علموں کو اکثر اساتذہ کی رہنمائی ہی کامیاب بنایا کرتی ہے۔
اس فارمولے کے تحت ان چاروں نکات لگاؤ، ضروت معاوضہ اور مہارت کو حاصل کرنا ہے ان میں سے جو بھی کم ہوگا اسے حاصل کرنے کے لیے محنت کرنی ہوگی جب یہ چاروں چیزیں آپ حاصل کر لیں گے تو آپ اصلی خوشی یا زندگی کا مقصد حاصل کر سکیں گے اور ان لوگوں میں سے ہوں گے جو صبح سویرے اٹھ کر اپنے کام پر جانے کے وقت کا انتظار کرتے ہیں۔ آخر میں پھر وہی تجربہ شرط ہے۔