آج ہم اپنے تعلیمی نظام پر بات کریں گے۔جو صرف نقل اور چھپائی پر مشتمل ہے،ہمارے بچے ” پبلشرز ” بن چکے ہیں۔آپ تماشہ دیکھیں جو کتاب میں لکھا ہوتا ہے۔ اساتذہ اسی کو بورڈ پر نقل کرتے ہیں۔بچے دوبارہ اسی کو کاپی پر چھاپ دیتے ہیں،اساتذہ اسی نقل شدہ اور چھپے ہوئے مواد کو امتحان میں دیتے ہیں۔
گناہ اور ہمارے بہانے ( پہلا حصہ)
خود ہی اہم سوالوں پر نشانات لگواتے ہیں اور خود ہی پیپر بناتے ہیں اور خود ہی اس کو چیک کر کے خود نمبر بھی دے دیتے ہیں،بچے کے پاس یا فیل ہونے کا فیصلہ بھی خود ہی صادر کر دیتے ہیں اور ماں باپ اس نتیجے پر تالیاں بجا بجا کر بچوں کے ذہین اور قابل ہونے کے گن گاتے رہتے ہیں۔جن کے بچے فیل ہو جاتے ہیں وہ اس نتیجے پر افسوس کرتے رہتے ہیں اور اپنے بچے کو “کوڑھ مغز” اور “کند ذہن” کا طعنہ دیتے رہتے ہیں۔آپ ایمانداری سے بتائیں اس سب کام میں بچے نے کیا سیکھا؟سوائے نقل کرنے اور چھاپنے کے؟
ہم 13، 14 سال تک بچوں کو قطار میں کھڑا کر کر کے اسمبلی کرواتے ہیں اور وہ اسکول سے فارغ ہوتے ہی قطار کو توڑ کر اپنا کام کرواتے ہیں،جو جتنے بڑے اسکول سے پڑھا ہوتا ہے،قطار کو روندتے ہوئے سب سے پہلے اپنا کام کروانے کا ہنر جانتا ہے ۔ہم پہلی سے لے کر اور دسویں تک اپنے بچوں کو ” سوشل اسٹڈیز ” پڑھاتے ہیں اور معاشرے میں جو کچھ ہو رہا ہے،وہ یہ بتانے اور سمجھانے کے لیے کافی ہے کہ ہم نے کتنا ” سوشل ” ہونا سیکھا ہے؟
اسکول میں سارا وقت سائنس ” رٹتے ” گزرتا ہے اور آپ کو پورے ملک میں کوئی “سائنس دان” نامی چیز نظر نہیں آئے گی،کیونکہ بدقسمتی سے سائنس “سیکھنے” کی اور خود تجربہ کرنے کی چیز ہے اور ہم اسے بھی “رٹّا” لگواتے ہیں۔
ہمارا خیال ہے کہ اسکولز کے پرنسپل صاحبان اور ذمہ دار اساتذہ اکرام سر جوڑ کر بیٹھیں اوراس “گلے سڑے” اور “بوسیدہ” نظام تعلیم کو اٹھا کر پھینکیں،بچوں کو “طوطا” بنانے کے بجائے “قابل” بنانے کے بارے میں سوچیں۔
تعلیم یا علم جیسے جیسے بڑھتا جاتا ہے انسان میں ویسے ویسے عاجزی کا مادہ بھی بڑھتا جاتا ہے،کوئی انسان جتنا زیادہ علم رکھتا ہے اس میں آناً اور تکبر اتنا ہی کم ہوتا ہے،
پر کیا آپ نے کبھی سوچا کہ آپکی تعلیم آپ کو کہاں لے کر جا رہی ہے؟کیا آپ میں اپنی تعلیم کا غرور تو نہیں؟جو تعلیم آپ کو انسانیت سے محبت اور ہمدردی کا درس ہی نہ دے سکے وہ تعلیم پھر کسی کام کی نہیں۔
تعلیم یافتہ شخص ایک عام شخص کی نسبت معاشرے کا زیادہ زمہ دار شخص ہوتا ہے اس کے سر پر اس معاشرے کی اصلاح کا قرض ہوتا ہے،پر ہم جیسے جیسے تعلیم یافتہ ہوتے جا رہے ہیں ویسے ویسے ہمارے اندر جہالت بڑھتی جا رہی ہے،ہر سال ڈگری کی صورت میں بس ایک کاغز کا اضافہ ہوتا جارہا ہے اور ہم اپنی اخلاقیات سے ایک قدم پیچھے اور اپنے تکبر میں بہت قدم آگے بڑھتے جا رہے ہیں۔
زندگی انسان کی سب سے بڑی درس گاہ اور بہترین استاد ہے،جو سبق ہمیں زندگی کے تجربات اور ارد گرد کے لوگ دے جاتے ہیں وہ کسی کتاب میں نہیں ملتے
مگر زندگی ایک عجیب قسم کی استاد ہے،جب ہم سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ ہر موڑ پر ہمیں نیا اور عمدہ سبق فراہم کرتی ہےاور جب ہم سیکھنا چھوڑ دیتے ہیں تو زندگی ہمیں سکھانا چھوڑ دیتی ہے۔
پہلے لوگ بزرگوں کے پاس بیٹھا کرتے تھے،پر آج کل کی نوجوان نسل کے پاس اتنی فرصت ہی میسر نہیں حالانکہ جو علم بزرگوں سے ملتا ہے وہ علم ہے جو انہوں نے زندگی کے تجربات سے سیکھا ہے،اور وہ علم کتابی اور نظریاتی علم سے بہت بہتر اور موثر علم ہے۔
ایک شخص تعلیم یافتہ ہو کر بھی ظالم، چور، بدمعاش اور برا ہو تو پھر دوسرے عام لوگوں کی اصلاح کون کرے گا؟ درحقیقت ہمارے معاشرے میں
جس کی لاٹھی اس کی بھینس
الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے
ہمارا کتا کتا تمہارا کتا ٹومی اور پپی
ان سب محاورات اور مثال کا درست اور زبردست استعمال ہمارے معاشرے پر ہی ہوتا ہے۔کبھی کبھی تو مجھے ایسے لگتا ہے کہ جیسے یہ سب محاورے بنانے والوں نے ہمارے لئے ہی بنائے تھے۔
یہاں جس کا مرضی دل کرتا ہے وہ احتجاج کرکے بیٹھ جاتا ہے،پولیس کو کوئی مسئلہ درپیش ہو تو وہ تھانہ بند کر دیتے ہیں اور اس کا نقصان بھی اس عوام کو ہوتا ہے،ڈاکٹرز کو کوئی مسئلہ ہو تو وہ ہسپتال بند کر کے بیٹھ جاتے ہیں،اس کا ازالہ بھی اس قوم کو اپنے پیاروں کی جان کی قربانی کی صورت میں ادا کرنا پڑتا ہے،وکیلوں کو کوئی مسئلہ درپیش ہو تو وہ کچہری بند کر دیتے ہیں،اس کا ہرجانہ بھی یہ قوم زلالت اور ازیت کی صورت میں ادا کرتی ہے،ٹرانسپورٹرز کو کوئی مسئلہ ہو تو وہ ٹرانسپورٹ بند کر دیتے ہیں،درحقیقت اسطرح کے تمام مسائل سے اذیت صرف اور صرف ایک عام آدمی، ایک غریب اور مزدور کو ملتی ہے۔
امیر امراء، اگر ٹرانسپورٹ بند ہے، تو کوئی بات نہیں اپنی لگثری گاڑیاں موجود ہیں، اگر ہسپتال بند ہیں تو موصوف لوگوں کی ایک کال پر کوئی بھی اچھا اور قابل ڈاکٹر خود گھر حاضر ہو جاتا ہے،اگر میڈیکل سٹور بند ہے تو کسی بھی شہر یا ملک کے کونے سے ادویات حاصل کر لی جاتی ہیں، وکیل ان کے گھر خود چل کر آتے ہیں، تھانے کچہری میں ان لوگوں کا صرف نام چلتا ہے۔
پر وہ غریب کس کے آگے ماتھا ٹیکے، جو ایک ایک وقت کی روٹی سے بھی ترس رہے ہیں، وہ اسپتال بند ہونے سے اپنے پیاروں کی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔
جھوٹے پرچوں میں پھنسا غریب کچہری کے دھکے کھاتا ہے، تھانوں میں اپنی بے گناہی اور اس ظالم معاشرے میں پیدا ہونے کی سزا کاٹتا ہے،میرا خیال یہ ہے کہ جب عام آدمی کو احتجاج کی اجازت نہیں، اور اپنے حق پر آواز اٹھانے پر اسے جھوٹے پرچوں میں نامزد کردیا جاتا ہے،تو پھر عام آدمی کو بھی اختیار دیا جائے کہ جب پولیس والے احتجاج کریں تو یہ عوام ان پولیس والوں کے خلاف پرچے کاٹ سکے۔
اگر ڈاکٹروں کا احتجاج ہو تو یہ عوام اسپتال جا کر دھکے مار مار کر ان ڈاکٹروں کو باہر نکال دے،اگر وکیل احتجاج کریں تو پھر ان کے خلاف کیس یہ عوام لڑ سکے،اگر ایسا کرنا ممکن نہیں تو پھر ایسے لوگوں کی زبان کو لگام دیا جائے،غریب کی تذلیل کسی صورت بھی قابل قبول نہیں ہے،جس کا مرضی دل چاہتا ہے وہی ارباب اختیار بن جاتا ہےاور ایک عام آدمی کو اپنے پاؤں کی جوتی سمجھ لیتا ہے۔
خدا کی قسم جس دن ہماری قوم کو اپنے حقوق اور اپنی طاقت کا معلوم ہوگیا اس دن یہ قوم ایک عظیم اور عزت دار قوم بن جائے گی،بے شک سر سید کے مطابق خدا اس وقت تک کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا، جب تک وہ قوم خود اپنی حالت نہ بدلنا چاہے،خدارا اس قائد کی قربانی کو بجا لائیں جس نے اس قوم کی خاطر اپنی آخری مرحلے کی ٹی بی جیسی خطرناک بیماری کو پوری دنیا کے سامنے راز رکھا تاکہ پاکستان بننے میں ان کی بیماری رکاوٹ نہ بن جائے،آپ کی تعلیم اگر آپ کو عاجز نہیں بناتی تو ایسی تعلیم پر فاتحہ خود ہی پڑھ دیا کریں، پڑھے لکھے جاہل بننے سے اچھا ہے کہ آپ پھر ان پڑھ رہ لیں. ڈگری کی صورت میں آپ بھی ایک کاروبار چلا رہے ہیں، آپ نے بھی دکان کھول رکھی ہے، آپ بھی منڈی کے تاجر ہیں، آپ کا رویہ بھی پھل فروش جیسا ہے، سی ایس ایس کرنے کے بعد بھی اگر آپ نے دوسروں کا حق مارنا ہے، ڈاکٹر بن کر بھی اگر غریب کی کھال اتارنے کو ترجیح دینی ہے، پی ایچ ڈی کرنے کے بعد بھی اگر آپ نے تکبر میں جینا ہے، انجینئر بن کر بھی اگر آپ نے کرپشن کر کے گندی سڑکیں اور عمارتیں تعمیر کرنی ہیں تو آپ سے اچھا وہ موچی ہے جو جوتے سی کر حق حلال کی کھا رہا ہے۔
تجزیہ قابل غور ہے ملاحظہ فرمائیں:
(20) بیس سال تک بندے میں اچھے ، برے کی تمیز آجاتا ہے ۔ باقی عمر کے حساب سے اگر زندہ رہا (60) سال تک نو انکے پاس (40) سال باقی رہتے ہیں ۔مطلب تعلیمی ڈگری لینے کے بعد نوکری یا کاروبار شروع کریگا ، اور تعلیمی ڈگری لینے میں بھی عمر کا کافی عرصہ بیت جاتا ہے ۔ مان لیتے ہے ماسٹر کرتے ہوے بچے کی عمر کم از کم (22) سے (25) سال تک تو ہوگی ۔ یہ ہے ہمارے معاشرے کا حال جہاں تعلیم مکمل کرتے ہوے آدھی زندگی گزر جائیں اور آدھی زندگی روٹی ، کپڑا ، مکان بنیادی ضروریات بنوانے میں گزر جائیں وہاں غلامی ، بھوک و افلاس ، غربت اور مہنگائی جیسے ناسور جرائم و بیماریوں سے نکل آنے والے اقوام کو ترقی یافتہ اقوام کہلاتے ہیں ۔ ہمارے ملک کو آزاد ہوتے ہوے 74 سال گزر گئے ہم اب تک ترقی پزیر قوم نہ کہ ترقی یافتہ ۔
الله ہم سب کا حامی و ناصر ہو آمین۔