ہم سب نے بچپن میں ایک جملہ ضرور پڑھا ہوگا اوربعد میں بچوں کو بھی بار بار پڑھایا ہوگا۔ اسلام آنے کے بعد عرب کے جنگجولوگ جو ڈاکہ ڈالنے ، ایک دوسرے کاحق مارنے ، چھوٹی چھوٹی باتوں پربہت سے لوگوں کا خون بہانے والےتھے وہ لوگ کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گئے اور تمام بری عادتیں چھوڑ کر بھائی بھائی بن گئے۔
تو کبھی آپ نے سوچا کہ وہ لوگ جو کئی سوسال تک لڑائی جھگڑے ، چوری و ڈاکہ زنی ، قتل وغارت گری میں ماہر تھے۔ اپنی لڑکیوں کوزندہ دفن کر دیتے تھے ۔ کئی کئی نسلوں تک دشمنیاں پالتے تھے۔ اسلام لانے کے بعد ایسا کیاہوا کہ وہ یکدم اپنی ساری بری عادتیں چھوڑ کر شریف ہو گئے اور آپس میں بھائی بھائی بن کر رہنے لگے اسلام تو آج بھی وہی ہے اور اسلام کے ماننے والے نسل در نسل مسلمان کیوں اپنی بری عادتوں سے چھٹکارہ نہیں پاسکتے کیوں آج دنیا میں سب سے ذیادہ بدنام ہیں ۔ اس بات کا سب سے آسان جواب یہ ہے کہ یہ سب غیر مسلموں کی سازش ہے وہ مسلمانوں کو بدنام و رسوا کرنا چاہتے ہیں ۔ لیکن اگر آپ ایمانداری سے بحثیت مسلمان اپنا جائزہ لیں گے۔ تو آپ کو معلوم ہو جائیگا کہ اس کی اصل وجہ غیر مسلموں کی سازش نہیں بلکہ ہمارا اپنا نامکمل ایمان ہے۔
ہم کلمہ تو پڑھتے ہیں مگر اس کے معنی اور مفہوم کواپنے دل و دماغ میں جگہ نہیں دیتے چونکہ ہم پیدائشی مسلمان ہیں ۔ ہم نے اس کلمہ کو پڑھنے کے بعد ان تکلیفوں اور مشکلوں کاسامنا نہیں کیا جن کاسامنا نبی کریم ﷺ کے ساتھیوں اور اس زمانے کے مسلمانوں نے کیا ۔ انہوں نے نہ صرف کلمہ کو پڑھا بلکہ اس کہ معنی و مفہوم کو سمجھا اور اس پر عمل بھی کیا ۔
آیئے آج ہم کچھ وقت کلمہ طیبہ کو سمجھنے کے لیے نکالتے ہیں ۔ کبھی ہم نے غور کیاکہ کلمہ طیبہ جس کوہم سب مسلمان اپنے ایمان کی مظبوط بنیاد سمجھتے ہیں اس کے تقاضے کیا ہیں اور یہ کلمہ ہم سے کن باتوں کا مطالبہ کر تا ہے ۔ جب ہم کہتے ہیں ” لاالہ الااللہ” اس کا کیا مطلب ہے ۔ اس کا لفظی مطلب تقریباً تمام مسلمانوں کو پتہ ہے کہ ” نہیں کوئی معبود سوائے اللہ کے” تو کبھی غور کیا کہ ہم کیوں اللہ کے سوا کسی کومعبود نہیں مانتے اور کہتے ایسی کونسی خوبیاں ہیں اور صفات ہیں جواس کائینات میں کسی اور کے پاس نہیں ۔ جیسے جیسے ہم غور کرتے جاتے ہیں یہ حقیقت ہم پر واضح ہوتی ہے کہ معبود حقیقی یعنی اللہ کی ذات میں موجود وہ بے شمار صفات جواس کو معبود واحد بنانے کے لئے کافی ہیں۔ اگر ہم ان میں سے چند خوبیوں اور صفات کو بھی دل کی گہرایوں سے تسلیم کر لیں توہم بھی عر ب کے جنگجو قبائیل کی طرح صرف اور صرف اس کلمہ کی برکت سے ہدایت کے راستے پر آجائیں۔
- سب سے پہلی خوبی جس پر یقین کئے بغیر ہمارا ایمان مکمل نہیں ہوسکتا وہ یہ ہے کہ اللہ حاضرو ناظر ہے یعنی اللہ کی ذات ہی وہ واحد ہستی ہے جو پوری کائنات میں ہر جگہ موجود ہے انسانوں کے دل سے لیکر پہاڑوں میں بنے ہوئے غاروں کے اندھرے گوشوں تک وہی ہے جوسب کچھ دیکھ اور سن رہا ہے۔
- دوسری خوبی یہ کہ اس کائینات کو چلانے کے لئے اس کو کسی کی مدد کی ضرورت نہیں وہ اکیلا ہی اس پوری کائنات کے چلانے کے لئے کافی ہے ۔ یعنی اسکا کوئی شریک نہیں ۔
- تیسری خوبی یہ کہ وہ اس کائینات میں موجو د تمام جانداروں کو رزق فراہم کرنے والی واحد ہستی ہے کسی کی مجال نہیں کہ وہ کسی بھی بے جان اور جاندار کورزق دے سکے سوائے اس کے جسے وہ خود رزق دینے کاذریعہ بنادے۔ پھر چاہے وہ انسان ہوں یا جن ، پرند ہو یا چرند ،حیوان ہوں یا درندے ، سمندر کی تہہ میں رہنے والے جاندار ہوں یا آسمان کے اس پار رہنے والی مخلوق ہوسب کو رزق پہنچانے کی زمہ داری اسی کی ہے اور وہ اس ذمہ داری کو احسن طریقہ سے نبھارہا ہے ۔
- وہی ذات ہے جس نے تمام مخلوق کو تخلیق کیا۔ سائنس کتنی ترقی ہی کیوںنہ کرلے اور دنیا کے تمام سائنسدان مل کر بھی ایک چھوٹی سی چیونٹی کے برابر کوئی جاندار تخلیق نہیں کر سکتے ۔ اس ذات رحیم نے انسان ، جن ،حیو ان،چرند ،پرند،درندے اور بے شمار جاندار پیدا کئے اور ان میں مختلف قسم کی تخلیقی صلاحیتیں بھی رکھیں مگر ان کی یہ صلاحیتیں بھی اس ذات باری تعالیٰ کی محتاج ہیں جس کے قبضہ قدرت میں ہر جاندار کی جان ہے ۔
جب ہم اللہ کی مذکورہ بالا چند خوبیوں اور صفات پر نظر رکھتے ہیں تو ہمیں ہدایت کے راستے اور اللہ کا قرب حاصل کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ یعنی جب ہمیں اس بات کا دل سے یقین ہوگا کہ اللہ ہر جگہ موجود ہے اور ہمیں دیکھ رہا ہے ،ہماری ہر ہرحرکت اور دل میں آنے والی چھوٹی سے چھوٹی برائی، نیکی اور بھلائی کی ہر بات کو وہ جاننے والا ہے تو ممکن ہی نہیں کہ ہم کوئی بھی ایسی حرکت کریں یا سوچیں جو ہمارے معبود حقیقی کو ناپسند ہو یا جس سے اس نے منع کیا ہو۔
اس طرح ہم کسی بھی دنیا کی شخصیت کی خوبیوں اور صفات کو اللہ کی صفات کے ساتھ نہیں ملائیں گے چاہے وہ دنیا کی محترم ترین ہستی نبی کریم ﷺ ہی کیوں نہ ہوں کیونکہ وہ اللہ کے پیارے نبی اور رسول ہونے کے ساتھ اللہ کے بندے بھی ہیں ۔ جس کا اعتراف ہم کلمہ شہادت میں کرتے ہیں ۔ ترجمہ : “میں گواہی دیتا ہوں کہ نہیں کوئی معبود سوائے اللہ کے اور محمد ﷺ اللہ کے بندے اور رسول ہیں “
انسان کی سب سے بڑی کمزوری اولاد ہے ۔ اور اس بات کا ذکر قرآن میں خود اللہ تعالیٰ نے بڑے واضح انداز میں کیا ہے ۔ ہم جسے چاہتے ہیں اولاد دیتے ہیں اور جسے چاہتے ہیں نہیں دیتے اور یہ اولاد اور مال تمھاری آزمائش ہے ۔ اولاد کے ہونے کی دعا کرنےسے لیکر اولاد کو دنیا کی ہر آسائش دینے تک انسان بڑی آزمائش سے گزرتا ہے ۔ جب کسی کی اولاد نہیں ہوتی تو شیطان اسکو اللہ کے راستے سے بھٹکا کر غیر اللہ کے آگے سر جھکانے پر مجبور کرتا پھر چاہے وہ غیر اللہ سے متعلق تعویز گنڈے ہوں یا مزاروں پر چادر چڑھانے کا عمل ہو یامنتیں ماننے کا۔ انسان کابھٹک جانا یقینی ہوتا ہے اگر اس کواس بات کا یقین ایسے نہ ہو جیسے روز سورج نکلنے کا ۔اس یقین کے بعد ہی کہ اللہ ہی تمام کائینات کا خالق ہے ۔ اسی کی ذات میں یہ طاقت ہے کہ وہ کسی کو اولاد دے سکے۔ پھر اسکی پرورش اللہ کے حکم کے مطابق کرسکے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو آج کے ترقی یافتہ دور میں جب میڈیکل سائینس نے لا محدود ترقی کر لی ہے ۔ انسان چاند پر پہنچ گیا اور نجانے کیا کچھ ایجاد کر لیا ہے مگر پوری دنیاکے سائنسدان مل کر بھی کسی کواولاد دینے کے قابل نہیں ورنہ آج لاکھوں لوگ بےاولاد نہ ہوتے۔ اللہ پر اس یقین کامل کی وجہ سے ہی انسان اولاد نہ ہونے پراپناایمان اور یقین بچا سکتا ہے کہ اللہ ہی تخلیق کی قدرت رکھتاہے۔
اگر اولادمانگنا ہے تواسی بزرگ و برتر ہستی سے مانگی جائے ۔ حالانکہ اللہ کی تویہ شان ہے کہ وہ پتھروں سے مانگنے والوں کوبھی دنیا کی ہر نعمت عطا کر دیتا ہے ۔ فرق صرف یہ ہے کہ وہ لوگ یا تو شروع سے ایمان پر نہیں ہوتے یا ایمان لاکر گمراہی میں بھٹک رہے ہوتے ہیں اور اللہ ان کو انکی گمراہی میں ڈھیل دے کر بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیتا ہے اوران کی تمام آرزوئیں اور خواہشات ان کے جھوٹے اور خود ساختہ معبودوں کے ذریعہ ہی پوری کر دیتا ہے اور وہ اپنی مستی مست رہ کر پوری زندگی گمراہی میں گزار دیتے ہیں۔
اس کے برعکس کلمہ توحید کوجاننے اور سمجھنے والاسچا مومن اپنی تمام تر خواہشیں، آرزوئیں اپنے اللہ سے بیان کرتا ہے اور اسی سے ان کے پورا ہونے کی دعا اور امیدکرتا ہے اور جودعا اللہ کی رحمت و کرم سے پوری ہو جاتی ہے اس پر شکر بجا لاتا ہے اور جو خواہشیں پوری ہونے رہ جاتی ہیں ان پر اللہ کی رضا جان کر اس امید پر خوشی خوشی زندگی گزارتا ہے کہ اللہ اس محرومی کا اجر اس کو آخرت میں عطا کرے گا۔
کلمہ طیبہ کادوسرا حصہ ” محمد رسول اللہ ” جوہمارے ایمان کو مکمل کرتاہے یعنی اللہ کی وحدانیت کے بعد یہ یقین رکھنا کہ محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں ۔ یہاں اللہ نے ہماری محمد ﷺ سے محبت کی حدود بھی متعین کر دیں کہ ہمارا یہ ماننا کہ نبی کریم ﷺ اللہ کے پیغمبر اوررسول ہیں۔ یعنی اصل ایمان توحید ہے اور آپ ﷺ اللہ کی طرف سے بھیجے جانے والے پیغام کوہم تک پہنچانے کا ذریعہ ہیں اور اللہ نے اپنی آخری کتاب قرآن مجید کو نازل کرنے کے لئے جس محترم اور معزز ہستی کو منتخب کیا وہ آپ ﷺ کی ذات مبارک ہے لہذا ہم پر یہ فرض ہے کہ ہم اللہ کاپیغام اور کتاب پہنچانے والی معزز ترین ہستی کااحترام اس طرح کریں کہ وہ ہمیں دنیاکی ہرچیز اور رشتہ سے ذیادہ عزیز ہو مگر ہم آپ ﷺ کے رتبہ کو پہچانیں۔
یہاں ایک اور غلط فہمی کی وضاحت بھی کرنا ضروری سمجھتی ہوں جو لوگوں نے خود ساختہ طور پر فرض کر لی ہے کہ ہم مسلمان چونکہ محمد ﷺ کی امت میں سے ہیں اس لئے آپ ﷺ کی شفاعت کی وجہ سے جنت توہمارامقدرہے ۔ ایسا ہرگز نہیں ہے ہے یوم آخرت میں اللہ کی اجازت کے بغیر کوئی سفارش نہ کر پائیگا ۔
کیا کبھی آپ کسی ایسے انسان سے ملے جوآپ کے لئے کسی بڑے حاکم کاہدایت نامہ لےکر آیا ہواور آپ نے اس کی کسی بھی ہدایت کونہ مانا ہو لیکن آپ اس سے یہ توقع رکھیں کہ وہ اس حاکم سے جن کی طرف سے وہ احکام آئے تھے آپ کی سفارش کرے گاکہ بےشک ان لوگوں نے آپ کا کوئی حکم نہیں مانا مگران کوآپ اپنے خاص وزیروں ،مشیروں میں شامل کر لیں۔ تو ہم پھر کس طرح سوچ سکتے ہیں کہ ہم اللہ اور اس کے رسول کی کھلی نافرمانی کریں گے۔
کاش ہم سب کلمہ طیبہ کی اہمیت و فضیلت کو سمجھیں تو ہم بھی عرب کے جنگجو قبائیل کی طرح کلمہ پڑھ کر اپنی ساری خراب اور بری عادتیں چھوڑ کر سچےاور کھرے مومنوں کی طرح بھائی بھائی بن کر رہنے لگیں۔
اللہ ہمیں کلمہ طیبہ کی صحیح روح سمجھنے کی توفیق عطاکرے۔ (آمین)