دروازے پر دستک ہوئی، دستک ہوتے ہی ابا جان دوڑتے ہوئے دروازے تک گئے۔اتنے میں گلابی رنگ ملبوس کپڑے میں اماں جان بھی بیٹے کے پیچھے چل دیں۔
اماں جان نے کہا ارے کون رات کے اس پہر دروازے پر دستک دے رہا ہے؟ اباں جان نے گردن موڑ کر بی جان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ارے بی جان! آپ جاکر سوجائیں میں دیکھ کر آتا ہو، کہ اچانک دروازے کے دوسرے جانب سے زور زوز سے رونے کی آواز آنے لگی، اور کچھ لمحے بعد ہچکیاں روکیں اور اس شخص نے صدا لگائی “ہے کوئی مسلمان بھائی جو اس مشکل وقت میں میری مدد کرے”۔
ابا جان تو شروع ہی سے ایمان افروز تھے، ابا جان نے جیسے ہی دروازہ کھولا، بی جان نے ابا سے کہاں آخر ہے کون اتنے رات گئے، ابا جان نے کہا کہ آپ سنا نہیں ایک مسلمان بھائی نے دوسرے مسلمان کو صدا لگائی”بھلا ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ میں اس کی مدد نا کروں، ابا جان نے دروازے کی کُنڈی کھولی سامنے جو شخص کھڑا تھا وہ کوئی اور نہیں، ہمارے پچھلے محلے کے آمجد بھائی تھے، ابا جان مڑے اور زور دار آواز کے ساتھ بی جان سے کہاں ارے اماں یہ کوئی اور نہیں بلکہ اپنے آمجد ہیں۔
ابا جان نے مجھے آواز دی” ثریا بیٹا ذرا برآمدے میں کرسیاں لگادینا بیٹا میں نے جی ابا کہتے ہوئے دوکرسی اور میز لگادی اور میں خود چائے بنانے کے لئے کچن کا رخ کیا۔
امجد بھائی کرسی پر بیٹھ گئے مگر مگر اُن کے لب کچھ نہیں بول رہے تھے۔ بس آنسو ٹپ ٹپ جاری تھے، ان کے آنکھوں نے نکلنے والے بے ساختہ آنسو اُن کے حال کو بیان کر رہے تھے، مگر پھر بھی ابا جان نے کہا بیٹا کیا ہوا اتنا کیوں رو رہے ہو، ایسا کیا ہوگیا جو تمھیں صدا لگانی پڑی وہ انکل پچھلے روز دوماہ قبل میری ملازمت چھوٹ گئی تھی، ہم تنخواہ دار ملازمین کا تو یہی ہوتا تنخواں ہر ماہ ختم ہوجاتی، میری چھوٹے بیٹے کو اپنڈکس کا درد اٹھ گیا ہے اور میں اسے اسپتال داخل کرواکر آیا ہوں، جو رقم میرے پاس تھی میں نے جمع کروائی ہیں، اور جو رقم درکار ہے اس کے لیے لوگوں کے دروازے پر دستک لگا رہا ہوں، پانچ دروازے کھٹکا چکا ہوں، مگر شاید کسی کے دل میں مغاذ اللہ اللہ کا خوف نہیں رہا ہے، ابا جان نے اس کی بات سنی ابا کے جان کے آنکھوں میں آنسو جاری ہوگئے ابا جان اُٹھے اور اُٹھ کر اُلٹے پاؤں اپنے کمرے کے جانب چل دیئے۔ ایک خاقی لفافہ میں کچھ رقوم ڈال کر امجد بھائی کے حوالے کردیئے۔
چائے کے برتن اٹھانے کے لیے آئی مجھے یاد آیا کہ ہمارے جو کام کسی نا کسی وجہ رُک جایا کرتے تھے اور پھر اچانک اللہ کی مدد سے ٹھیک ہوجاتے تھے اس کی وجہ اسی طرح کی نیکیاں ہیں۔ “انسان ایک نیکی کرتا ہے۔اللہ اس کو ایک نیکی کے بدلے ہزار در کھولتا جاتا ہے ۔اس طرح ابا جان کے نیکی کرنے کی وجہ سے ہمارے سارے در کھلتے چلے جاتے ہیں۔