فیصلے ملک کے مفاد میں ہونے چاہئیں!

انسانوں نے بہت سارے نظاموں کو تشکیل دیا کتنے ایسے جو نافذ ہونے سے قبل ہی معدوم ہوگئے اورجو آزمائے گئے انکی کامیابی اوسط درجے سے اوپر نہیں جا سکی، دنیا میں دو ایسے نظام ہیں جن میں سے ایک مقدار پر چلتا ہے اور دوسرا وہ جو معیار پر یقین رکھتا ہے۔

گوکہ خلافت وجود میں نہیں ہے لیکن یہ دائمی نظام مملکت ہے اس لیے باطل قوتیں اس کے نفاذ سے بچنے کی ہر ممکن کوشش میں سرگرداں رہتے ہیں۔ مقدار جمہوریت ہے اور معیار خلافت، تھوڑا سا خلافت اور جمہوریت کا بھی موازنہ کرلیتے ہیں، دنیا خوب واقف ہے کہ خلافت میں کس طرح سے بہترین فیصلہ سازوں کا انتخاب کیا جاتا رہا اور پھر یہ بہترین فیصلہ ساز بہترین فیصلے کرتے رہے ہیں۔

 آسان لفظوں میں یوں سمجھ لیجئے کہ بہترین دماغوں پر مشتمل شوری عوام کیلئے عوام کے حق میں بہترین فیصلے کرتی ہے اسکا کام دوراندیشی سے کام لینا ہوتا تھا نا کہ جذباتی فیصلے کرنا اور عوام جو سوچ سمجھ سے کسی حد تک عاری ہوتی ہے کی خواہش کی مطابق فیصلے کرنا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کچھ ایسے فیصلے بھی ہوتے ہوں جو عوام کی خواہش کے عین مطابق ہوتے ہوں۔ پس ثابت یہ ہوتا ہے کہ خلافت میں گنتی نہیں گنی جاتی بلکہ ذہنی معیار دیکھا جاتا ہے جو دین و دنیا سے بھرپور ہم آہنگ ہو۔

 جمہوریت کے نام سے تو سب ہی واقف ہیں۔ یہ وہ نظام حکومت ہے جس میں اقتدار اکو ایک مخصوص طبقے کیلئے مرتب کیا جاتا ہے اور جو اس بات کی ضمانت کہ وہ عوام کے نمائندے ہیں کی بنیاد پر اس مخصوص طبقے کی رکنیت حاصل کرلیتے ہیں۔ فیصلے ہوتے تو صاحب اقتدار کی مرضی کے ہیں لیکن اسکی توثیق سڑکوں پر عوام سے کروالی جاتی ہے کیونکہ عوام کو یہ پتہ ہوتا ہے کہ یہ فرد جو ہماری زبان بولتا ہے، جو ہمارے مسلک سے تعلق رکھتا ہے، یا پھر یہ ہمارے علاقے کا ہے۔کہا تو یہ جاتا ہے کہ عوام کی حکومت، عوام کیلئے لیکن مقاصد کچھ اور ہوتے ہیں۔

قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کا کہنا تھا کہ کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے سوبار سوچو پھر قدم اٹھاؤ، جب قدم اٹھا لو تو پھر اس پر ڈٹے رہو یہاں تک کے وہ فیصلہ صحیح ثابت ہوجائے۔ آخر ایسا کیوں کہا گیا؟بظاہر تو یہ کسی ضدی انسان کا مزاج لگتا ہے لیکن تاریخ گواہی دیتی ہے کہ اس میں موجود روشن ستاروں کی اکثریت ایسے ہی مزاج والوں کی ہے کہ وہ اپنے فیصلوں پر ڈٹے رہے یہاں تک کہ انہیں تسلیم کرلیا گیا اور بعض ایسے بھی ہیں کہ جن کے اس دنیا سے رخصت ہوجانے کے بعد ان کے فیصلے یا ان کے کام کو تسلیم کیا گیا۔ قائد اعظم محمد علی جناح کے کچھ فیصلے ایسے تھے جنہیں وقتی طور پر تو تنقید کا سامنا رہا لیکن وقت نے انکی سچائی کو ثابت کردیا۔

موجودہ صاحب اقتدار کی زندگی کے حالات بھی کسی ایسے ہی مزاج کے شخص سے مماثلت رکھتے ہیں کہ جو ٹھان لیا جس منزل کی طرف قدم بڑھا دیا تو پھر وہاں پہنچ کر ہی دم لیا۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان صاحب نے جن حالات میں اقتدار سنبھالا وہ حالات کوئی نئے نہیں تھے پاکستان میں ہمیشہ ہی انتقال اقتدار کے بعد عوام کو یہی بتایا جاتا رہا ہے کہ اگر جانے والی حکومت کچھ دن اور گزار لیتی تو پاکستان دیوالیہ ہوجاتا۔

تحریک انصاف تبدیلی کا نعرہ لگا کر اقتدار میں آئی اور عوام نے ووٹ بھی اس نعرے کو دیا اور اس بات کو ذہن میں رکھ کر دیا کہ جس نے یہ نعرہ لگایا ہے اسکے لئے یہ ایک اور عالمی کپ جیتنے کیلئے نکلنے سے کم نہیں ہوگا۔ گزشتہ تین سالوں سے حکومت اور حکومتی اراکین بدعنوانی کے سرے ڈھونڈنے میں گزار چکے ہیں، ایسے لوگوں کو کمرہ عدالت تک لے آئے جو کبھی سوچ بھی نہیں سکتے تھے لوگوں میں کسی حد تک یہ واضح بھی کرنے میں کامیاب ہوئے کہ ملک کی ترقی میں تاحال کون کون سی رکاوٹیں کھڑی ہوتی رہی ہیں۔

 لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ عوام کو عوامی توقعات کے مطابق ثمرات نہیں پہنچا سکے جو عوام کا بنیادی مسلۂ ہے۔ حکومت نے اداروں کو سبسیڈی دینا بند کردی جس کی وجہ سے اداروں کو اپنی پیداواری صلاحیتوں کو بڑھانا نا گزیر ہوگیا اور جہاں بیٹھ کر کھانے کا رواج تھا انکے لئے ایک مشکل وقت شروع ہوگیا۔ اب ان ساری صورتحال سے نمٹنے کیلئے ایسے لوگوں کیلئے سوائے اسکے کہ وہ چوربازاری کو فروغ دیں اور سماجی ابلاغ پر حکومت کے خلاف چلنے والی بے سر وپا تحریکوں کا حصہ بنیں کچھ باقی نہیں پچا تھا۔

حکوت ابھی اس صورتحال سے گزر ہی رہی تھی کہ کورونا نامی وباء نے ساری دنیا کی معیشت کو تحس نحس کر کے رکھ دیا یہ ایک ایسا بحران تھا کہ جس نے ترقی یافتہ ملکوں کی معیشتوں کو بھی ہلا کر رکھ دیا۔ اللہ کے کرم سے پاکستان شائد ہو واحد ملک تھا جہاں نقصانات کا تخمینہ جتنا بھی ہو لیکن متاثرہ افراد کی تعداد قابل براداشت رہی۔

کورونا کی صورتحال سے نمٹنے کیلئے وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے مختلف قسم کے اقداما ت کئے خصوصی طور پر سندھ اور وفاق سے ملحقہ صوبوں میں فرق نمایاں رہا، کچھ قدرت حکومت پر مہربان رہی جس کی وجہ سے وفاق کی حکمت عملیوں کا اعتراف ساری دنیا نے کیا۔ اس منظم حکمت عملی میں ایک بدترین عمل لاک ڈاؤن (بندش) کا تھا جو اوائل میں مکمل طور پر لگایا گیا جس سے انسانی زندگی مفلوج ہوکر رہ گئی یہ عمل تقریباً دو چار مہینے جاری رہا جس کے دوران ذرائع آمد و رفت مکمل طور پر بندہو کر رہ گئی انتہائی قلیل حرکات و سکنات کی اجازت دی گئی تھی۔

ایسی صورتحال میں ساری دنیا میں پیٹرولیم مصنوعات کی پیداوار میں نمایاں کمی ہوئی جس کی وجہ سے حکومتوں کو ان مصنوعات کی قیمتوں میں نمایاں کمی کرنی پڑی تاکہ تیل صاف کرنے والے ادارے چلتے رہیں۔ حسب عادت پاکستانی عوام نے قیمتوں کی کمی سے پھرپور فائدہ اٹھانے کی غرض سے پیٹرول اور ڈیزل ضرورت سے زیادہ مقدارمیں ذخیرہ اندوزی کے غرض سے اٹھانا شروع کر دیا جو طلب اور رسد کے قانون کی خلاف ورزی کے مترادف ہے اور اخلاقیات کی بھی خلاف ورزی ہے۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پیٹرول یا ڈیزل کی پیداوار بیرون ممالک سے آنے والے خام تیل سے مشروط ہوتی ہے جوکہ کورونا کی وجہ سے سفری پابندیوں کے باعث کچھ عرصے معطل رہی یا بہت قلیل رہی اور دستیاب خام تیل بڑھتی ہوئی ضرورت کو پورا کرنے میں ناکام رہا جس کی وجہ سے طلب اور رسد کا بحران پیدا ہوا۔ سچ پوچھیں تو عوام خود اس بحران کے ذمہ دار ہیں۔یہ وہ کھلے حقائق ہیں جو تقریباً ہر ذی شعور کے سمجھنے کیلئے کافی ہیں۔ یہ تو ممکن ہی نہیں کہ پیٹرولیم مصنوعات کی ترسیل کے ادارے کسی فرد کو مصنوعات کی اضافی خریداری سے روک سکتے ہیں۔

 کیا اس صورتحال سے عوام نے فائدہ نہیں اٹھایا جب وہ فائدہ اٹھا رہے تھے اس وقت اس بات کا خیا ل نہیں رکھا گیا کل کسی قسم کا بحران پیدا ہوسکتا ہے۔ یہاں بات کرتے ہیں عوام کو اس چیز سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کیا ہونے والا ہے یا کیا ہورہا ہے،باور رہیں کہ ہمارے یہاں ہر صورتحال کو سیاست کیلئے استعمال کیا جاتا ہے، حقائق پر کوئی بات کرنا پسند ہی نہیں کرتا، تنقید برائے تنقید۔

حکومتِ وقت کے اس عزم سے یقینا کسی کو کوئی اختلاف نہیں ہوگا کہ وہ ملک سے بدعنوانی ختم کرنے کیلئے پرعزم ہے، اور ہر ہر حکومتی وزیر اپنے اپنے وزارت کے ماتحت اداروں میں بہتری کی ہر ممکن کوشش کرتے دیکھائی دے رہے ہیں اسکی ایک وجہ وزیراعظم کی سہ ماہی رپورٹ کا خوف بھی ہے جس میں یہ بتانا ہوتا ہے کہ فلاں وزیر کی وزارت کے ماتحت اداروں نے گزشتہ تین ماہ میں کیا کارگردگی یا پیش رفت ہوئی ہے اور ہم نے دیکھا ہے کہ ایسے بعض وزیروں کو انکی خراب کارگردگی کی بنیاد پر معزول بھی کیاگیا ہے جو ایک احسن اقدام ہے جس کی پذیرائی عوامی حلقوں میں بھی سنی جاتی رہی ہے۔

 پیٹرولیم مصنوعات کے بحران کا ذمہ دار وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے پیٹرولیم ندیم بابر صاحب اور سیکریٹری پیٹرولیم میاں اسد حیا الدین صاحب کو ٹہرانا اور انکو اپنے اپنے عہدوں سے معزول کردینا کسی بھی طرح سے وزیراعظم کا مدبرانہ فیصلہ نہیں ہے۔ ندیم بابر صاحب ماتحت اداروں کی کارگردگی بہتر بنانے کیلئے بھر پور معاونت فراہم کرتے دیکھائی دے رہے تھے اورہر ممکن ایسے اقدامات کررہے تھے کہ جس سے بین الاقوامی سرمایہ کاری کیلئے راہیں ہموار کی جائیں اور بہترین پیشہ ورانہ ماحول قائم کیا جائے ایسے وقت میں انکی اور سیکریٹری صاحب کی معزولی کے فیصلے کا یہ صحیح وقت نہیں۔واضح دیکھائی دے رہا ہے کہ یہ فیصلہ بھی عوامی اور ابلاغ کے دباؤ میں کیا گیا ہے جس کا فائدہ ہمیشہ مخالفین کو ہوتا رہا ہے اور اداروں کو نقصان پہنچتا رہا ہے۔

وزیر اعظم عمران خان صاحب بطور عوام یہ بات بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ آپ فیصلے جذباتی طور پر نہیں کرتے اور نا ہی کرینگے، کیونکہ پاکستان اب کسی جذباتی فیصلے کا محتمل نہیں ہوسکتا اور ہم یہ بھی لکھنا چاہتے ہیں کہ آپ نے ہمیشہ ریاست مدینہ کے نظام کیلئے بات کی ہے ریاست مدینہ ہمیں نظام خلافت کی طرف توجہ دلاتی ہے جہاں فیصلے بہترین دماغ کرتے ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں وزیر اعظم صاحب آپ اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرتے ہوئے معزول کئے گئے حضرات کو بحال کرینگے تاکہ ان کی کارگردگی مزید بہتر ہوسکے اور ایسے لوگوں کو منہ کی کھانی پڑے جو ملک کو کسی حال میں ترقی کرتا نہیں دیکھ سکتے۔  عوام کو سمجھنا ہوگا کہ ملک کے مفاد میں ہونے والے فیصلے بلاآخر عوام کی فلاح کیلئے ہی ہوتے ہیں اور دیرپا بھی ہوتے ہیں۔

حصہ
mm
شیخ خالد زاہد، ملک کے مختلف اخبارات اور ویب سائٹس پر سیاسی اور معاشرتی معاملات پر قلم سے قلب تک کے عنوان سے مضامین لکھتے ہیں۔ ان کا سمجھنا ہے کہ انکا قلم معاشرے میں تحمل اور برداشت کی فضاء قائم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے اور دوسرے لکھنے والوں سے بھی اسی بات کی توقع رکھتے ہیں کہ قلم کو نفرت مٹانے کیلئے استعمال کریں۔