انتہائی افسوس کہ ہم دین حق اسلام کی روشن تعلیمات کو پس پشت ڈال کر مادر پدر آزاد اغیار کی بے ہودہ اور بد تہذیب عادات و اطوار کے گرویدہ بنتے چلے جارہے ہیں۔ اسلام ہمیں جھوٹ بولنے سے منع کرتا ہے، اس کے باوجود ہم یہود و نصاریٰ کی نقالی کرتے ہوئے جھوٹ بول کر اپنے احباب واقرباء کو بے وقوف بنا کر ان کی دل آزاری کا باعث بنتے ہیں، اور پھر اپنے اس گناہ کو فخریہ انداز میں لوگوں کے سامنے بیان کرتے ہیں۔
یکم اپریل کے دن بولے جانے والے جھوٹ کی وجہ سے بے شما ر لوگوں کی زندگیاں برباد ہوجاتی ہیں، اور اپریل فول کاشکار ہونے والے لوگ شدید صدمے میں مبتلا ہوکر جان تک سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، اور کئی افراد معاشرے میں منہ دیکھانے کے قابل نہیں رہتے، اور گھر کی چار دیواری تک محدود ہوجاتے ہیں ۔ کتنے ہی گھروں میں طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں اور کتنے خوش وخرم جوڑے مستقل طور پر ایک دوسرے سے متعلق شکوک وشبہات کا شکار ہوجاتے ہیں ،اور مذاق کرنے والا ان سارے ناقابل تلافی گناہ و نقصانات کا چاہتے ہوئے بھی ازالہ و کفارہ ادا نہیں کر سکتا۔ جبکہ یہود و نصاریٰ کی تہذیب کی تقلید میں اندھے اکثر مسلمان اپریل فول کی حقیقت سے بھی واقف نہیں۔
اپریل فول کی حقیقت جاننے کے لئے اگر تاریخ کے اوراق پلٹیں تو معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں نے اسپین میںتقریباً آٹھ سو سال تک حکومت کی، اس دوران عیسائیوں نے مسلمانوں کو شکست سے دوچار کرنے اور اسلام کی جڑوں کو اسپین سے اکھاڑ پھینکنے کی بیشمار کوششیں کیں مگر اپنی کسی بھی کوشش میں ان کو کامیابی نصیب نہ ہوئی،انہوں نے اپنی پے درپے ناکامیوں اور مسلمانوں کی طاقت اور قوت کے اسباب جاننے کے لیے اسپین میں اپنے جاسوسوں کو بھیجا تاکہ وہ مسلمانوں کے ناقابل شکست ہونے کا راز پا سکیں، ان جاسوسوں نے اپنے آقاوں کو یہ رپورٹ دی کہ چونکہ مسلمانوں میں تقوی موجود ہے اور وہ قرآن اور سنت کی مکمل اتباع کرتے ہیں اور حرام اور منکرات سے بچتے ہیں اس لیے وہ ناقابل شکست ہیں۔
جب انہوں نے مسلمانوں کی طاقت کا راز پا لیا تو اپنی ساری ذہنی قوت اس بات پر خرچ کردی کہ کسی طریقے سے مسلمانوں کو انکی اس روحانی طاقت سے محروم کردیا جائے، اس کے لیے انہوں نے یہ حکمت عملی وضع کی کہ شراب اور سگریٹ کی مفت ترسیل اسپین کو شروع کر دی، انکی یہ ترکیب کامیاب رہی اور ان اشیاء کے استعما ل کی وجہ سے مسلمانوں میں اخلاقی کمزوریا ں نمایاں ہونے لگیں خصوصاً مسلمانوں کی نوجوان نسل اس سازش کا سب سے زیادہ شکار ہوئی،مسلمان اخلاقی تنزلی کا شکار ہوکر کمزور پڑ گئے اور پھر جب عیسائی افواج نے اسپین کو فتح کیا تو اس وقت اسپین کی زمیں پر مسلمانوں کا اتنا خون بہا یا گیا کہ فاتح فوج کے گھوڑے جب گلیوں سے گزرتے تھے تو ان کی ٹانگیں گھٹنوں تک مسلمانوں کے خون میں تر ہوجاتی تھیں۔
جب قابض افواج کو یقین ہوگیا کہ اب اسپین میں کوئی بھی مسلمان زندہ نہیں بچا تو انہوں نے گرفتار مسلمان فرما روا کو یہ موقع دیا کہ وہ اپنے خاندان کیساتھ واپس مراکش چلا جائے جہاں سے اسکے آباؤ اجداد آئے تھے ،قابض افواج غرناطہ سے کوئی بیس کلومیٹر دور ایک پہاڑی پر اسے چھوڑ کر واپس چلی گئی جب عیسائی افواج مسلمان حکمرانوں کو اپنے ملک سے نکال چکیں تو حکومتی جاسوس گلی گلی گھومتے رہے کہ کوئی مسلمان نظر آئے تو اسے شہید کردیا جائے ، جو مسلمان زندہ بچ گئے وہ اپنے علاقے چھوڑ کر دوسرے علاقوں میں جا بسے اور وہاں جا کر اپنے گلوں میں صلیبیں ڈال لیں اور عیسائی نام رکھ لئے، اب بظاہر اسپین میں کوئی مسلمان نظر نہیں آرہا تھا مگر اب بھی عیسائیوں کو یقین تھا کہ سارے مسلمان قتل نہیں ہوئے کچھ چھپ کر اور اپنی شناخت چھپا کر زندہ ہیں اب مسلمانوں کو باہر نکالنے کی ترکیبیں سوچی جانے لگیں اور پھر ایک منصوبہ بنایا گیا۔
پورے ملک میں اعلان ہوا کہ یکم اپریل کو تمام مسلمان غرناطہ میں اکٹھے ہوجائیں تاکہ انہیں انکے ممالک بھیج دیا جائے جہاں وہ جانا چاہیں۔اب چونکہ ملک میں امن قائم ہوچکا تھا اور مسلمانوں کو خود ظاہر ہونے میں کوئی خوف محسوس نہ ہوا، مارچ کے پورے مہینے اعلانات ہوتے رہے ،مسلمانوں کے لئے بڑے بڑے میدانوں میں خیمے نصب کردیئے گئے جہاز آکر بندرگاہ پر لنگرانداز ہوتے رہے ، مسلمانوں کو ہر طریقے سے یقین دلایا گیا کہ انہیں کچھ نہیں کہا جائے گا جب مسلمانوں کو یقین ہوگیا کہ اب ہمارے ساتھ کچھ نہیں ہوگا تو وہ سب غرناطہ میں اکٹھے ہونا شروع ہوگئے اسی طرح حکومت نے تمام مسلمانوں کو ایک جگہ اکٹھا کرلیا اور انکی بڑی خاطر مدارت کی۔
یہ کوئی پانچ سو برس پہلے یکم اپریل کا دن تھا جب تمام مسلمانوں کو بحری جہاز میں بٹھا یا گیا مسلمانوں کو اپنا وطن چھوڑتے ہوئے تکلیف ہورہی تھی مگر اطمینان تھا کہ چلو جان تو بچ جائے گی دوسری طرف عیسائی حکمران اپنے محلات میں جشن منانے لگے ،جرنیلوں نے مسلمانوں کو الوداع کیا اور جہاز وہاں سے چل دیے ، ان مسلمانوں میں بوڑھے، جوان ، خواتین، بچے اور کئی ایک مریض بھی تھے جب جہاز سمندر کے عین وسط میں پہنچے تو منصوبہ بندی کے تحت انہیں گہرے پانی میں ڈبو دیا گیا اور یوں وہ تمام مسلمان سمندر میں ابدی نیند سوگئے۔ اس کے بعد اسپین میں خوب جشن منایا گیا کہ ہم نے کس طرح اپنے دشمنوں کو بیوقوف بنایا۔ پھر یہ دن اسپین کی سرحدوں سے نکل کر پورے یورپ میں فتح کا عظیم دن بن گیا اور اسے انگریزی میںFirst April Fool کا نام دیدیا گیا یعنی یکم اپریل کے بیوقوف۔آج بھی عیسائی دنیا اس دن کی یاد بڑے اہتمام کے ساتھ منائی جاتی ہے اور لوگوں کو جھوٹ بول کر بیوقوف بنایا جاتا ہے۔
یہ دن منانے سے قبل مسلمانوں کو اس دن کی حقیقت سے آگاہ ضرور ہونا چاہیے کہ اس دن کس طرح مسلمانوں کو دھوکہ دہی سے قتل کردیا گیا تھا، اور مسلمانوں کے لئے اس سراسر غیر اسلامی اور غیر اخلاقی دن کا منایا جانا اسلام کی عظیم تعلیمات اور اخلاقی اقدار کے منافی ہے۔دین حق اسلام میں جھوٹ کو نفاق کی علامت بتلایا گیا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جھوٹ کی سختی سے ممانعت فرمائی ہے۔ حدیث مبارکہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جو شخص اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ ہمیشہ سچ بولے یا خاموش رہے، ایک دوسری روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص پرخصوصی طور پر لعنت فرمائی ہے جو جھوٹ بول کر لوگوں ہنساتا ہے۔