آج سے چاردہائی قبل مائیں جب بچہ روتااور بار بار اپنے کانوں کو خارش کرتا ،ایڑھیاں رگڑتا،ناک کو ہاتھوں سے رگڑتا اور چیخیں مار مارکر روتا تو مائیں سمجھ جاتیں کہ میرا بچہ کسی تکلیف میں مبتلا ہے،اس بچے کا علاج دو طرح سے کیا جاتا ۔سب سے پہلے تو گھریلو ٹوٹکے آزمائے جاتے جیسے کہ اگر پیٹ میں درد محسوس کیا جاتا تو کوئی گھریلو قہوہ بنا کر جیسے کہ دار چینی،سونف وغیرہ کا بنا کر بچے کو پلا دیا جاتا اور دیکھتے ہی دیکھتے بچہ خاموش ہو جاتا،جس کا مطلب یہ کہ قہوہ نے اپنا اثر دکھا دیا ہے۔زکام ہونے کہ صورت میں بچے کو کوئی بھی کارٹن کا کپڑا ہلکی آنچ پہ گرم کیا جا تا اور پھر اسے بچے کی ناک پر رکھ کر سے بھاپ دی جاتی تو ایسا کرنے سے بھی بچہ کا زکام جاتا رہتا۔اگر گلا خراب ہو جاتا تو گھر میں موجود شہد انگلی پر لگا کر بچے کے گلے کو لگا دیا جاتا اور بچہ اسی سے صحت یاب ہو جاتا۔دوسرا طریقہ جو میری دانست میں سب سے موثر ہوتا،وہ یہ کہ جب بھی بچہ روتا تو اس کی چیخیں سیدھی ماں کے کلیجے پر اثر کرتیں۔ماں بھاگی بھاگی آتی اپنے بچے کو اٹھاتی،سینے سے چمٹاتی،اسے کوئی لوری سناتی،تھپکی دیتی اور پھر گود میں لے کر اسے سلا دیتی۔جب بچے کی نیند پوری ہو جاتی تو بچہ خود ہی ٹھیک ہو جاتا۔
لیکن آج کی مائیں ٹی وی ا سکرین کے سامنے براجمان ہیں،ساس بھی کبھی بہو تھی کا کلائمکس چل رہا ہے،ایسے میں شیر خوار کے رونے کی آواز سنائی دیتی ہے۔ماں حوصلہ کر کے اٹھتی ہے،اپنے پرس سے موبائل نکالتی ہے ،اس میں سے کارٹون نکال کر بچے کے ہاتھ میں موبائل پکڑا دیتی ہے۔حرکت کرتی تصاویروں کو دیکھ کر بچہ خاموش ہو جاتا ہے۔بچہ لا شعوری طور پر یہ بھی بھول جاتا ہے کہ شائد اسے دودھ کی طلب ہو رہی تھی۔یہی بچہ جب سکول جانا شروع ہو جاتا ہے تو اپنی پختہ عادت کے سبب وہ سکول جانے سے قبل اپنی پسند کے کارٹون ضرور دیکھے گا کیونکہ وہ اس کی شیر خواری سے ہی عادت ثانویہ بن چکی ہے۔اب ماں نے خود بھی تیار ہونا ہے ،ناشتہ بھی بنانا ہے ،اپنے خاوند کے لئے بھی ناشتہ اور اس کے آفس کے لئے تیاری میں مدد کرنا ہے تو اب یہی ماں اپنے بچے کے کارٹون دیکھنے کے سب سے زیادہ مخالف دکھتی ہے،بلکہ کبھی کبھار تو بچے کی اچھی خاصی درگت بھی بنا ڈالتی ہے اور وہ بھی یہ کہتے ہوئے کہ تمہیں تیرے باپ نے خراب کیا ہے۔اگر یہی ماں شیر خواری میں جب بچہ رویا تھا اور ماں نے اس بچے کے ہاتھ میں کارٹون لگا کر موبائل ہاتھ میں تھما دیا تھا اس وقت بچے کو اٹھا کر اسے گود میں لیا ہوتا یا اپنے سینے سے لگایا ہوتا تو آج بچہ کو کارٹون دیکھنے میں نہیں بلکہ ماں کی گود میں سکون ملتا۔
اب آتے ہیں اس طرف کہ کیا بچے کو کارٹون دیکھنا چاہئے کہ نہیں،کارٹون کے کیا نقصانات ہیں ؟کیا فوائد ہیں اور کیا اس مسئلے کو کوئی حل بھی ہے؟سب سے پہلے ہم دیکھتے ہیں کہ کارٹون دیکھنے کے بچے کو کیا کیا نقصانات ہو سکتے ہیں؟
تو سب سے پہلا جو نقصان ہوتا ہے وہ ہے وقت کا ضائع ہونا۔کیونکہ جب بچہ اپنی پسند کے کارٹون دیکھ رہا ہوتا ہے تو اسے وقت کے گزرنے کا احساس تک بھی ہیں ہوتا ہے۔کب تین چار گھنٹے گزر گئے اسے پتہ بھی نہیں چلتا۔ویسے بھی یہ بات صرف بچوں تک ہی محدود نہیں ہے بڑے بھی ایسا ہی کرتے ہیں کہ تین گھنٹے کی فلم دیکھنے میں انہیں مزہ آتا ہے لیکن اگر یہ کہہ دیا جائے کہ عشا کی نماز ادا کرلو تو انہیں لگتا ہے کہ اس عمل کے لئے بہے وقت درکار ہوگا۔دوسرا بڑا نقصان معاشی نقصان یہ ہوتا ہے کیونکہ آجکل ایسی گیمز بھی مارکیٹ میں آچکی ہیں جو پیسوں سے خریدی جاتی ہیں۔جب بچے کو ایسی گیمز کا پہلا لیول فری میں دستیاب ہوتا تو اسے دیگر لیول کو کرنے کاتجسس اور جستجو پیدا ہوتی ہے جسے خرید کر کے اسے کھیلنا پڑتا ہے۔اس لئے ایسا کرنا معاشی نقصان کرنا ہے۔جو بچے کارٹون دیکھتے ہیں ان کے بارے میں ایک سروے رپورٹ یہ کہتی ہے بچہ ہمہ وقت اسی ماحول میں اپنے آپ کو دیکھتا ہے۔ایک لحاظ سے آپ کہہ سکتے ہیں کہ بچہ کے ذہن پر کارٹون حد سے زیادہ دیکھنے سے نفسیاتی اثرات بھی مرتب ہوتے ہیں۔جو دماغی کمزوری کا بھی باعث ہو سکتے ہیں۔علاوہ ازیں کارٹون دیکھنے سے بچے کی سونے کی ترتیب بھی متاثر ہوتی ہے۔کہ جب بچہ کسی کارٹون کی سیریز کو شروع کر لیتا ہے تو پھر اس کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اسے ختم کر کے ہی سوئے بھلے اس کی ماں کتنا بھی شور مچاتی رہے کہ بیٹا سو جائو صبح کو اسکول بھی جانا ہے۔اس کے علاوہ میری دانست میں ایک سب سے بڑا جو نقصان ہوتا ہے وہ ہے زبان پر اثر۔جو بچے کارٹون مسلسل دیکھتے ہیں ان کے بولنے کا انداز بھی لاشعوری طور پر ویسا ہی ہو جاتا ہے۔اس بات کا پتہ مجھے تب چلا جب ایک دن میں اپنے بیٹے سے بات کرتے ہوئے اس کی رائے معلوم کی تو اس نے جواب میں کہا کہ بابا ایک دم مست ہے۔مجھے بڑا ہی عجب لگا تو اسے پوچھ لیا کہ بیٹا یہ الفاظ آپ نے کہاں سے سیکھے ہیں تو اس نے جواب دیا کہ بابا وہ ایک کارٹون مووی میں سنے تھے۔
اب دیکھتے ہیں کہ اس کے فوائد کیا ہیں۔سب سے بڑا فائدہ تو یہ ہے کہ کارٹون چونکہ بچے بڑے شوق اور انہماک سے دیکھتے ہیں اس لئے وہ وہاں سے اپنی معلومات میں اضافہ بھی کرتے ہیں۔نئے نئے الفاظ سیکھتے ہیں۔ان کے اندر تجسس اور کچھ سیکھنے کو جذبہ پیدا ہوتا ہے۔اور کچھ کرنے کی موٹیویشن ملتی ہے۔اب آتے ہیں کہ اس سارے مسئلے کا حل کیا ہے؟
یاد رکھئے کہ بڑا ہو کہ چھوٹا جس چیز میں بھی ان کی دلچسپی ہوتی ہے وہ ضرور کر کے پی رہتے ہیں۔اس لئے بچے اگر کارٹون میں بہت زیادہ انہماک دکھا رہے ہیں تو آپ کچھ بھی کر لیں بچے کارٹون دیکھنے سے باز نہیں آئیں گے۔تو ایسی صورت حال میں کیا کرنا چاہئے۔کیا انہیں ان کے حال میں چھوڑ دیا جانا چاہئے،ہرگز نہیں۔ہمیں بچے کو مار کٹائی کر کے یا سرزنش کر کے نہیں منع کرنا بلکہ اس مسئلہ کا متبادل حل تلاش کر کے بچے کو وہ موقع فراہم کیا جائے تاکہ بچہ کارٹون کے ساتھ ساتھ دیگر سرگرمیوں میں بھی حصہ لے سکے جیسا کہ اگر بچہ زیادہ موبائل یا کارٹون سکرین کے سامنے بیٹھتا ہے تو اسے متبادل کے طور پر کتاب دینا چاہئے۔تاکہ اس کا وقت تقسیم ہو جائے۔اس کے کارٹون دیکھنے کے لئے وقت مقرر کردیا جائے۔یا پھر جب آپ شاپنگ کے لئے جاتے ہیں تو انہیں بھی ساتھ لے جائیں بھلے وہ گاڑی میں بیٹھ کر کوئی سٹوری بک ہی کیوں نہ پڑھتا رہے۔ایسا کرنے سے کچھ اور ہیں تو بچے کی توجہ تقسیم ہ وجائے گی جو کہ ہو سکتا ہے کہ کم ہوتے ہوتے ختم ہی ہو جائے۔کیونکہ ہر کام کے کرنے کے لئے ایک عمر ہوتی ہے۔جب وہ بچہ اس عمر سے گزر جاتا ہے تو اسے خود بھی محسوس ہونا شروع ہو جاتا ہے کہ اسے دو میں سے کسی ایک کو منتخب کرنا ہے تو آپ تجربہ کر دیکھئے کہ بچہ اسی طرف جائے گا جس میں اسے فائدہ ہو۔دوسرے والے کام کو وہ خود ہی چھوڑ دے گا۔