اسلام حقوقِ نسواں اور تکریم نسواں کا سب سےبڑا علمبردار ہے۔ اس نے دنیا والوں کے مقرر کردہ “خواتین کے عالمی دن” کے موقع پر صرف ایک دن کے لیے نہیں بلکہ ازل تا ابد عورت کو حقوق اور عزت و احترام عطا کیے ہیں۔
اسلام خواتین کو سب مذاہب، تہذیبوں اور معاشروں سے زیادہ اور فطری حقوق مہیا کرنے کا ضامن ہے۔ حقوق و فرائض میں توازن کی بہترین مثال اسلام نے اہل دنیا کے سامنے پیش کی ہے جس نے خواتین کے طرزِ زندگی (life style) کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے اور ان کو آئیڈیل حیثیت عطا کر دی ہے۔
اسلام نے عورت کو ذلت کی پستیوں سے نکال کر اوج ثریا پر پہنچا دیا ہے۔ اسے مذہبی، روحانی، معاشی، معاشرتی، سیاسی، قانونی، اور تعلیمی حقوق عطا کیے ہیں اور اسے ماں، بہن، بیوی، اور بیٹی کی صورت میں قابلِ عزت و احترام ٹھہرایا ہے۔
نبی مہربان حضرت محمدﷺ نے حجتہ الوداع کے عظیم موقع پر خواتین کے حقوق کا خصوصی طور پر تذکرہ کر کے ان کو پورا کرنے کی بڑی تاکید فرمائی تھی۔ (صحیح بخاری: 1741،صحیح مسلم: 1679
اسلام میں بیرونِ خانہ تمام سرگرمیوں کی انجام دہی اور فکر معاش کی ذمہ داری مرد کی ہوتی ہے اور گھر کے اندر مرد کے کما کر لائے ہوئے مال سے گھر کا انتظام کرنا، شوہر کے لیے اطمینان و سکون کی فضا مہیا کرنا، اس کی خدمت کرنا، اس کی اولاد کی صحیح تعلیم و تربیت کرنا اور دیگر تمام امور خانہ داری سر انجام دینا یہ سب کام عورت کے ہیں۔ مردوں کا اپنی ذمہ داریوں کو کماحقہ ادا کرنا بڑا ضروری ہے کیونکہ روزِ قیامت مردوں سے ان ذمہ داریوں کی باز پُرس کی جائے گی۔
نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ ترجمہ: “تم میں سے ہر ایک اپنے ماتحتوں پر نگران ہے اور تم سب سے ان کے بارے میں جواب دہی کی جائے گی۔” (صحیح بخاری :5082؛ صحیح مسلم : 2527
گھر معاشرے کا بنیادی ادارہ ہے اور عورت اس ادارے کی ملکہ ہونے کے ساتھ ساتھ منتظم اور مہتمم بھی ہے۔اگر گھر میں عورت اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے ادا کرے گی تو متوازن نظام قائم ہوگا۔ جس کے نتیجے میں معاشرے کے تمام ادارے ٹھیک ہو سکیں گے۔
عورت گھر کی “مالکہ” ہے۔ اور اس کے لیے اپنی ذمہ داریوں کی احسن طریقے سے ادائیگی اس لیے بھی ضروری ہے کہ روز قیامت عورتوں سے بھی ان کی ذمہ داریوں کے بارے میں حساب کتاب لیا جائے گا۔ چنانچہ رسول اکرم ﷺ کا ارشاد ہے:ترجمہ: “عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کے بچوں کی نگران ہے اور اس سے ان (ذمہ داریوں) کے متعلق باز پرس کی جائے گی۔” صحیح بخاری: 5082؛ صحیح مسلم: 2527
قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہےترجمہ: “اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو آگ سے بچاؤ۔”
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ترجمہ: “انسان اپنی اولاد کو جو کچھ دیتا ہے اس میں سب سے بہتر عطیہ اولاد کی اچھی تعلیم و تربیت ہے۔” صحیح بخاری: 5082؛ صحیح مسلم:2527
اولاد پر شفقت اور مہربانی کرنے اور ان کی بہترین تعلیم و تربیت کے معاملے میں نبی اکرم ﷺ نے قریش کی خواتین کی تعریف ان الفاظ میں فرمائی :
ترجمہ: “اونٹوں کی سوار بہترین خواتین قریش کی نیک خواتین ہیں، جو اولاد پر بچپن میں انتہائی مہربان اور نرم ہوتی ہیں اور شوہر کی ملکیتی اشیاء کی دیکھ بھال کرنے والی ہوتی ہیں۔” صحیح بخاری: 7138
عورت بحالتِ مجبوری یا شوق معاشی ضروریات کے لیے گھر سے باہر جا سکتی ہے لیکن اسلام کی مقرر کردہ حدود و قیود کے ساتھ، جو خود اس کے لیے فائدہ مند ہیں۔ایک اسلامی ملک ہونے کے ناتے وطن عزیز پاکستان میں خواتین کے حقوق کی پاسداری سب سے زیادہ ہونی چاہیے لیکن افسوس کہ صورتحال مختلف ہے۔ ہمارے ہاں خواتین کے حقوق کا استحصال کا سلسلہ جاری وساری ہے۔خواتین کی آبادی تقریباً 9کروڑ ہے لیکن خواتین کے مسائل ہمارے ملک میں دیگر ممالک کی نسبت زیادہ ہیں۔
ہم خواتین کو تصویر کائنات کا رنگ ،دنیا کی دلکشی و رعنائی اور وقار اور استحکام کی علامت تو قرار دے لیتے ہیں لیکن سب سے زیادہ ظلم بھی صنفِ نازک پر ہی روا رکھا جاتاہے۔ اقتدار کے ایوانوں میں آج کی خواتین کے حقیقی مسائل کو قانون سازی کے ذریعے سےحل کرنے کی ضرورت سب سے زیادہ محسوس کی جا رہی ہے۔ لیکن اہم ترین بات یہ ہے کہ ان مسائل کا حل زندہ جاوید اور لاریب کتاب قرآن مجید اور نبی مہربانﷺ کی سنت مبارکہ اور احادیث شریف کی روشنی میں ہونا چاہیے۔
اسلامی معاشرے میں عورت کا مقام و مرتبہ (status) مغربی معاشرے میں عورت کے مقام ومرتبے سے بالکل مختلف اور منفرد بلکہ نہایت اعلیٰ و ارفع ہے۔مغرب میں خواتین کے حقوق کا تحفظ “اخلاقیات” سے نہیں بلکہ اس کی “افادیت” (utility) سے کیا جاتا ہے۔
پھر مغربی معاشرہ اس بات کو تسلیم نہیں کرتا کہ اللہ تعالیٰ نے عورت کو کسی خاص مقصد کے لیے پیدا کیا ہے۔ جبکہ اسلام کا نظریہ یہ ہے کہ اللہ تعالٰی پر ایمان پہلی اور بنیادی چیز ہے جس کی بغیر دین کا تصور نہیں، اور اس دنیا کے بعد آخرت کا وجود بھی ہے اور انسان کو دنیا میں آزمائش کے لیے بھیجا گیا ہے۔ آزمائش و امتحان کی حیات و ممات میں مرد وعورت دونوں ایک دوسرے کے لیے ناگزیر ہیں۔ دونوں کا ایک دوسرے کے بغیر گزارہ ممکن نہیں ہے۔کارزار حیات میں عورت کا کردار مرد سے کسی حد تک الگ لیکن نہایت اہمیت کا حامل ہے۔
عورت خاندان اور معاشرے کی بنیاد اور اکائی (unit) ہے، خاندانی نظام کی عمارت کی بنیادی اینٹ ہے، نسلوں کی معمار اور تعمیر کردار (character building) کی ذمہ دار ہے۔ شوہر کی عزت وعصمت کی محافظ ہے۔ مرد کے خون پسینہ بہا کر کما کرلائے ہوئے رزق حلال سے عورت گھر کا انتظام و انصرام چلانے اور اولاد کی تربیت کرنے کی ذمہ دار ہے!
قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے عورت کے اصل مقام کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے ترجمہ: “اور اپنے گھروں میں ٹکی رہو۔” الاحزاب، 33:33
یعنی گھر کے اندر رہنا اور بلاضرورت گھر سے باہر نہ جانا، یہ ہی عورت کے لیے حکم ہے۔اسلام نے عورت کو وہ مقام و مرتبہ دیا جس سے اس کا لائف سٹائل بدل گیا ہے۔ عورت کو ماں کی صورت میں کائنات کی محترم ترین ہستی قرار دیا اور جنت ماں کے قدموں تلے رکھ دی گئی اور اس کی نا فرمانی کو حرام قرار دیا گیا۔ بہن کی صورت میں بھائی کو اس کا محفظ اور بعض صورتوں میں اس کا کفیل بنایا گیا۔ بیٹی کو “اللہ کی رحمت” قرار دیا گیا اور تین بلکہ دو بیٹیوں کی پرورش اور تعلیم و تربیت کے بدلے میں جنت واجب کر دی گئی. نیک بیوی کو “دنیا کی بہترین متاع” “دل کی ٹھنڈک” اور “آنکھوں کا سکون” قرار دیا گیا۔
خطبہ حجتہ الوداع حقوق نسواں کا بہترین چارٹر ہے۔ یہ اتنی اہمیت کا حامل ہےکہ اسے تاریخ انسانی میں”نیو ورلڈ آرڈر” کی حیثیت حاصل ہے۔اس نے “میگنا کارٹا” سے بھی کئی صدیاں پہلے انسانیت اور خصوصاً خواتین کو سربلندی ورفعت عطا کی ہے۔
اسلام نے عورت کے لئے اس کے گھر کو اس کا اصل مقام قرار دے کر اس کے دامن میں خوشیوں کے رنگ بھر دیے. گھر آباد ہوئے تو معاشرہ آباد ہو گیا۔ نیک اور صالح لوگ اس کا ثمر بن کر دنیا کو فائدہ پہنچانے لگے۔ لیکن جدید تحریکِ نسواں اور فیمنزم، لبرلزم، سیکولرازم، صنفی مساوات، وومنز امپاورمنٹ (women’s empowerment) جیسی اصطلاحات اور معاملات نے عورت کو گھر سے باہر نکال کر اس کا گھر اُجاڑ دیا۔ اس سے حیاتِ کار زار کی خوشیاں چھین کر اسے کانٹوں بھری راہوں پر چلنے پر مجبور کر دیا۔
اب مغربی عورت مسلمان عورت کی زندگی دیکھ کر، اس کا مقام و مرتبہ جان کر، اس کے حقوق و فرائض کا متوازن انداز دیکھ کر اس پر رشک کرتی ہے۔ وہ گھر کے اندر واپس جانے، خالص “عورت” بننے اور اس جیسا مقام حاصل کرنے کی “آرزو مند” ہے لیکن اس کا مادر پدر آزاد “لبرل” معاشرہ اس بات کو برداشت کرنے کو تیار نہیں ہے۔ کیونکہ یہاں صرف اس خاتون کی اہمیت ہے جو زیادہ سے زیادہ مردوں کی نقال کر سکے اور مرد جیسی بن کر زندگی کے نشیب و فراز گزار سکے۔
لیکن وہاں مرد اور معاشرہ عورت کو گھر واپسی کا راستہ دینے کو تیار نہیں!
ہماری مشرقی خواتین کا اصل مسئلہ آزادی اور لبرلزم نہیں بلکہ “جہالت” اور “لاعلمی” ہے۔ وہ نہ تو دینی تعلیم یافتہ ہیں اور نہ ہی دنیاوی تعلیم یافتہ۔ بس ڈراموں، فلموں، اور سوشل میڈیا کے آڈیو ویڈیو کلپس کی “تربیت یافتہ” ہیں۔
اس وجہ سے وہ اکثر پریشانی اور ظلم و تشدد کا شکار ہوتی ہیں۔ غلط رسوم و رواج میں جکڑی رہتی ہیں اور بے شمار دینی و دنیاوی نقصانات اٹھاتی ہیں.سوشل میڈیا کی نامعقول اور اخلاق سے عاری “تعلیم و تربیت” سونے پر سہاگہ ثابت ہو رہی ہے۔ لہٰذا سب سے پہلے ان کو بنیادی اور اعلیٰ سطحوں پر تعلیم دینا اور تربیت سے آراستہ کرنا ضروری ہے۔ جس میں امور خانہ داری کے علاوہ بنیادی فنی مہارتیں سکھانا بھی ضروری ہے۔اس کے نتیجے میں وہ اپنی صحت کا خیال بھی رکھیں گی اور خاندان بھر کے افراد کے مفاد کو ترجیح دیں گی۔ اور بوقت مجبوری اپنی روزی روٹی کا سامان بھی کر سکیں گی۔
عورت کو خاندان اور معاشرے میں وہ عزت و احترام اور حقوق بجا طور پر ملنے چاہییں جو اسلام نے اسے عطا کیے ہیں۔ اور خطبہ حجتہ الوداع میں نبی مہرباں ﷺ نے ان کا تذکرہ فرمایا ہے۔ بہرحال مسلمان عورت کو جو حقوق اور عزت وتکریم اسلام نے عطا کی ہے، دنیا کا کوئی مذہب، کوئی تہذیب اور کوئی معاشرہ اس کا ثانی اور مدمقابل نہیں ہو سکتا!!!
ان میں حقوق نسواں کا خیال بھی ہے اور عمل بھی!!!
نسوانیت کا تحفظ بھی ہے اور اعلیٰ اخلاقی اقدار بھی!!!
نسوانیت کی تکمیل بھی ہے اور انسانیت کی معراج بھی!!!
بلاشبہ اسلام حقوق نسواں، تحفظ نسواں اور تکریم نسواں کا اصل محافظ و نگہبان ہے۔