لوگ کہتے ہیں یہ جدید دور ہے ، تعلیم کا رحجان بڑھ گیا ہے ہر شخص باشعور اور سمجھدار ہے۔ اپنے بچوں کو مہنگے سے مہنگے اسکول میں اعلیٰ تعلیم دلاکر اپنے بچوں کو بہترین مستقبل دے رہے ہیں ۔ پہلے لوگ جاہل تھے جنہوں نے اپنے بچوں کو وہ کچھ نہیں دیا جو آج کے والدین دے سکتے ہیں۔
درحقیقت یہ سوچ ان ہی لوگوں کی ہو سکتی ہے جن کے ذہن محدود سوچ رکھتے ہیں اور وہ غور وفکر کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ کیونکہ جو کل اور آج کے فرق کو محسوس کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں وہ اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ کل کے والدین بے شک ان پڑھ تھے مگر جاہل نہیں تھے۔ کیونکہ جاہل کو اپنی جہالت کا احساس نہیں ہوتا اور وہ جو ہے جیسا ہے سب ٹھیک ہے کی بنیاد پر اور وہ اپنی زندگی میں مگن ومست رہتاہے۔
جب کہ ان پڑھ جانتا ہے کہ وہ علم کی روشنی کے بغیر جو زندگی گزار رہا ہے وہ زندگی کا مقصد کو سمجھنے سے قاصر ہے ۔ لیکن وہ اس کمی اور محرومی سے اپنی اولاد کو بچانے کے لئے اسے علم کی روشنی سے منور کرنے کی جدو جہد ضرور کرے گا ۔ اور ان کا یہی عظم اور جذبہ کی صداقت کا ثبوت اس قوم کے وہ خلیفہ، ادیب ، استاد ، ڈاکٹر ، انجینئر اور وہ قابل فخر لوگ ہیں جن کی وجہ شہرت انسانیت کی خدمات انجام دینا تھا نہ کہ ڈگریاں حاصل کرکے اپنی بڑائی وغرورمیں مبتلا ہو کر انسانیت کا مذاق اڑانا تھا۔
جاہل جس کو اپنی جہالت کا احساس بھی نہیں ہوتا اس کے نزدیک زندگی جو ہے جیسی ہے کی بنیاد پراپنی زندگی میں خوش اور مگن ومست رہتا ہے کیونکہ اس کی زندگی صرف آج پر ہوتی کل کیا ہوگا اسے اس کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی اور آج کے پڑھے لکھے ماں باپ ایسی ہی زندگی کو کامیابی سمجھ کر خوش ہیں کہ آج زندگی کے مزے لے لو کل کی کل دیکھیں گے جس کا ثبوت آج کا تعلیمی معیار اور تعلیمی اہلیت ہے۔
بچے میٹرک کے بعد بھی ایک درخواست لکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ پھر بھی ان کا داخلہ بہترین کالج اور یونیورسٹی میں ہوجاتا ہے ۔بڑی بڑی ڈگریاں کے کر عملی زندگی میں ناکام رہتے ہیں۔ کیوں؟ ؟ ؟ ؟ ؟ ؟
یہی ثبوت ہے جہالت کے اندھیرے کو روشنی سمجھنے والوں کی ھٹ دھرمی کا کہ وہ اپنی نااہلی پر دوسروں کو مورد الزام ٹھہراکر اپنی جہالت کی پردہ پوشی کرکے اپنی ضد پر قائم ہیں کہ وہ جدید دور کے باشعور سمجھ دار لوگ ہیں۔سمجھدار ہوتے تو دیکھتے کہ آج کی نسل خراب نہیں ہے بلکہ ان کےوالدین کی تربیت اور زندگی کے طور طریقے غلط ہیں ۔
راتوں کو جاگنا ، دن بھر سونا، فاسٹ فوڈ کھانا ، بچوں کی ہر فرمائش کو وقت سے پہلے پوری کر دینا یہ سب کیا کوئی باشعور قوم کا وطیرہ ہو سکتا ہے ۔ جس کے نتیجے میں اپنی ہی اولادوں کو ذہنی معذور بنا رہے ہیں کہ ذرا سی محنت کا کام کرلیں تو سر درد کی شکایت ہو جاتی ہے ۔ جسمانی محنت کا سوچ کر بخار چڑھ جاتا ہے۔ رشتوں کی اہمیت کا احساس ہے نہ پیارومحبت کا کوئی تعلق جڑا نظر آتا ہے ۔ یہ نئی نسل کا قصور نہیں ہے بلکہ اس سوچ کا نتیجہ ہے جو اپنی اولاد کو دنیا کی ہر شے دیتے ہیں سوائے اپنی تہذیب واقدار کی پہچان کے۔
پہلے لوگ ہر دکھ تکلیف سہنے کے باوجود رشتوں کو توڑتے نہیں تھے بھوکے رہتے مگرکسی دوسرے کے سامنے اپنی مفلسی کے اظہار کو باعث شرمندگی سمجھتے تھے، اپنی تہذیب واقدار کو ہر چیز پر مقدم رکھتے، بڑوں کی عزت واحترام کا خیال رکھتے،اپنے پرائے بچوں کے ساتھ شفقت ومحبت سے پیش آتے تھے۔اپنے بچوں کو ان شخصیات کے بارے میں معلومات دیتے جن کو سن کر بچوں میں ایک جوش ولولہ پیدا ہوتا کہ وہ بھی ایسے ہی بڑے بڑے کام کر کے اپنے ملک کا نام روشن کریں گے ، لوگوں کی خدمت کریں گے، ضعیف اور کمزور لوگوں کی مدد کریں گے۔ جس کے نتیجے میں قائداعظم ، اقبال ، سرسید احمد خان ، مولانہ محمد علی جوہر ، مولانہ شوکت علی جیسے عظیم انسانوں نے دنیا کو اپنی شناخت ایک مومن مسلمان کی حیثیت سےکرائی اور اپنی صلاحیتوں کو ایسا منوایا کہ ان کے کارناموں کو دنیا آج بھی تسلیم کرتی ہے۔
آج کے باشعور اور سمجھدار لوگ ڈگری لےکر اونچے عہدوں پر فائز ہوکر ایسی فضا میں سانس لے رہے ہیں کہ شاید ان کو خودبھی نہیں معلوم کہ ان ہستیوں کا کیا مقام ہے تو وہ اپنے بچوں کو کیا متعارف کرائیں گے۔ ان لوگوں کی بدنصیبی یہ ہے کہ ان کے پاس اپنے بچوں کو دینے کے لئے دولت ہے، دنیا کی ہر آسائش ہے مگر ان کا وقت نہیں ہے ۔ جو سب سے قیمتی اثاثہ ہے۔ کیوں کہ وہ ہی اپنی تہذیب وتمدن کا جو نقشہ ان کے ذہنوں میں نقش کر سکتے ہیں یہ کام کوئی دوسرا نہیں کرسکتا، اپنے رشتوں سے تعلق کی مضبوطی، ان کی اہمیت،ان کی افادیت، ان سے جڑے رہنے کی برکت کی وجہ سے اللہ کی رضاوخوشنودی کا احساس وجذبات صرف والدین ہی پروان چڑھا سکتے ہیں مگر یہ صرف اب خواب وخیال کی باتیں نظر آتی ہیں کیوں کہ آج کل بچوں کوبزرگوں ایسے دور رکھا جاتا ہے جیسے چھوت کی بیمار سے بچایا جاتا ہے۔
درحقیقت نئی نسل خراب نہیں ہے ان کی تربیت سے غافل ماں باپ کی غلط سوچ اور خودغرضی کا عمل ہے جو اپنے اصل حقوق وفرائض کو چھوڑ کر مغربی تہذیب کے رنگ کو اپنانے کے جوش میں دن رات مشین کی طرح مصروف رہتے ہیں اور ان کو پتہ بھی نہیں چلتا کب وقت گزر گیا اور جن بچوں کو اونچا مقام دلانے اور بہترین پراسائش لائف اسٹائیل دینے میں مصروف تھے جب تھک کر کچھ دیر آرام کرنا چاہا تو تنہائی کے درد کے سا کچھ بھی ساتھ نہ تھا کیونکہ آج کی نسل کو یہ سبق پڑھایا جاتا ہے کہ زندگی ایک بار ملتی ہے انجوائے کرو ۔ کسی رشتہ دار کے نوکر نہیں ہو کہ ان کےکام کرکے اپنا وقت ضائع کرتے پھرو یہ بات لفظوں کے ذریعے نہیں بلکہ رویوں سے سمجھائی جاتی ہے ۔
تو اس میں نئی نسل کا کیا قصور ہے وہ تو معصوم اور ناسمجھ ہوتے ہیں کورے کاغذ کی طرح جو لکھا جاتا ہے وہی سمجھتے ہیں اور عمل کرتے ہیں۔ پھر اسی محدود سمجھ کے نتیجے میں وقت اور حالات سے وہ سیکھتے ہیں تو سیکھ کر بھی کچھ نہیں سیکھتے کیوں کہ وہ شعور اور علم کی روشنی سے وہ آشنا ہی نہیں ہوتے جو آگہی کے دروازے سے صحیح اور غلط کی شناخت کرسکیں ۔ ہزاروں میں کوئی ایک ایسا ہوتا ہے جو اس گھٹے ہوئے ماحول سے باہر نکلنا چاہتا ہے تو قدم قدم پر معاشی ، معاشرتی ، سیاسی ، ملکی حالات اسے اس طرح جکڑ لیتے ہیں کہ وہ اگر خوش قسمتی سے اپنے مقصد میں کامیاب بھی ہوجائے تو زندگی کی اس خوشی اور مسرت سے محروم ہوجاتا ہے جو اس کا حق ہوتا ہے۔
اور یہی اس باشعور لوگوں کا المیہ ہے کہ سمجھ نہیں رہے کہ اپنی بیٹیوں کو فیشن کے نام پر بےحیائی کے لباس پہنا کر ان سے شرم وحیا کے احساس کو چھین رہے ہیں۔ ان کی صلاحیتوں کوشہرت کے نام پر مغربی تہذیب کا لبادہ اوڑھا کر ان کو ان کی اسلامی اقدار اور اللہ کی حدود کو تجاوز کرکے اسلامی معاشرے کا ایسا ناسور بنارہے ہیں جن کی اصلاح کرنا خودان کے بس کی بات نہیں رہی ۔ یہ ہی وہ حقیقت ہے جس سے انکار کرنے والوں کی مثال ایسی ہی ہے جیسے شطرمرغ خطرے کو دیکھ کر اپنا منہ ریت میں چھپا لیتا ہے اور سمجھتا کہ وہ خطرہ اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا ۔ جبکہ ایسا سوچنا بیوقوفی کے سوا کچھ بھی نہیں ۔ اگر ہمیں اپنی نسلوں کو تباہی وبربادی سے بچانا ہے تو فیشن کے نام پر عریاں اور جسم کے حصوں کو ڈھانپنے کے بجائے نمایاں کرنے والے لباس کو اپنی معصوم بچیوں سے دور رکھنا ہوگا۔ ان کی صلاحیتوں کا رخ اسلامی تہذیب اور قرآن وسنت کی روشنی میں زندگی گزارنے کی طرف موڑنا والدین کی سب سے بڑی اور اہم ذمہ داری ہے جس کا انہیں اللہ کو جواب دینا ہے ۔