دنیا بھر میں کہیں قحط سالی سے عوام کا جینادوبھر ہے توکہیں طوفانی بارشوں اور سیلابی ریلوں نے انسانی زندگی کو دائو پر لگا رکھا ہے۔ جدید ترقی کے اس دور میںبنی نوعِ انسان آلودہ ہوا میں سانس لینے اور آلودہ پانی پینے پر مجبور ہے،یہی وجہ ہے کہ بڑھتی ہوئی ماحولیاتی آلودگی صحت مند معاشرے کی تشکیل میں ایک بڑی رکاوٹ بن رہی ہے۔ماحولیاتی آلودگی سے دنیا بھر میں ہر سال کم و بیش 30لاکھ جبکہ پاکستان میں 60ہزار کے لگ بھگ اموات ہوتی ہیں،جنوب مشرقی ایشیاء اور دنیا کے کئی دیگر ممالک میں ہر 3 میں سے2اموات آلودگی سے پیدا شدہ بیماریوں کے باعث ہوتی ہیں،ایک جائزے کے مطابق نصف سے زائد صرف2 ممالک یعنی بھارت اور چین میں ہوتی ہیں کیونکہ یہاں کوئلے سے بجلی پیدا کرنے والے پلانٹ آلودگی کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔
ماحولیاتی آلودگی کے شکار ممالک کا اگر موازنہ کیا جائے تو ان میں سب سے پہلا نمبر چین ، دوسرا بھارت،تیسرا روس،فضائی آلودگی کا شکار چوتھا بدترین ملک پاکستان جبکہ یوکرائن پانچویں نمبر پر ہے۔ گرین ہائوس گیسوں کے اخراج اور ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے عالمی درجہ حرارت میں گزشتہ چند دہائیوں سے تیزی سے اضافہ ہورہا ہے اور یہ موسمی تغیر ہی ہے کہ مختلف ممالک کو طوفانی بارشوں ، سیلابی ریلوں اور سمندری طوفانوں سے ہونیوالے نقصانات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔فضاء میں اس وقت 31 فیصد کے لگ بھگ کاربن ڈائی آکسائیڈ جیسی مہلک گیسیں موجود ہیں۔ماہرین کے مطابق 2100ء تک سمندر کا لیول 9سے100سینٹی میٹر تک بڑھ جائے گا جس سے ساحلی شہر ڈوب جائیں گے۔ ماحولیاتی آلودگی اور حدت کو کم کرنے کے اقدامات بجا طور پرقابل تحسین ہیں کیونکہ ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ ساتھ پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک کو بھی اس کے باعث اپنے ہاں مسائل پر قابو پانے اور نمٹنے میں مدد ملے گی لیکن اصل مسئلہ اس معاہدے پر عملدرآمد کا ہے ۔
موسمیات کے عالمی ادارے (ڈبلیو ایچ او) کی رپورٹ کا اگر جائزہ لیا جائے تو 2014 ء سے لے کر 2019 ء تک کا 5 سالہ عرصہ ریکارڈ کے اعتبار سے گرم ترین تھاکیونکہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے ریکارڈ اخراج سے سطح سمندر کے اضافے میں نمایاں طور پر تیزی آئی ہے۔ 1993 ء کے بعد سے اب تک اضافے کی اوسط شرح ہر سال 3.2 ملی میٹر رہی، تاہم مئی 2014 ء سے 2019 ء تک یہ اضافہ ہر سال5ملی میٹر تک بڑھا ہے۔2007 ء سے 2016 ء کے دوران یہ اضافہ اوسطاً ہر سال چار ملی میٹر کے حساب سے دیکھا گیا،یاد رہے کہ 1850 ء کے بعد سے عالمی درجہ حرارت میں 1.1 ڈگری سینٹی گریڈجبکہ 2011 ء سے 2015 ء کے درمیان 0.2 سینٹی گریڈ تک مزید اضافہ ہوا ہے۔ آب و ہوا میں تبدیلیوں کے باعث حدت میں ہونے والے اضافے کا 90 فیصد سمندروں میں جاتا ہے۔ 2018 ء میں ریکارڈ کی گئی سمندری حدت ماضی کے اعداد و شمار کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔ 2019ء کے آغاز سے امریکہ نے گرین ہائوس گیسز کو محدود کرنے کا جو عالمی معاہدہ کیاتھااس پر عملدرآمدنہیں ہو سکاجو کہ لمحہ فکریہ سے کم نہیں ہے کیونکہ قبل ازیں بھی ماحولیاتی آلودگی پرقابو پانے کیلئے عالمی سطح پر کئی معاہدے ہو ئے ہیں لیکن ان پر عملدرآمد دیکھنے کو نہیں ملا۔ چین نے اپنے پاور سیکٹر میں فضائی آلودگی کا سبب بننے والے ذرائع سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں 60 فیصد تک کمی لانے کیلئے2024ء تک کی مہلت لی ہوئی ہے، پاکستان، بھارت اور بعض خلیجی ریاستوں نے 2028ء تک کی مہلت مانگی ہے کیونکہ ان کی معیشت ابھی ترقی کے مراحل میں ہے،اب یہاں سوال یہ ہے کہ کیا یہ تمام ممالک اپنے اہداف حاصل کرنے میں کامیاب ہو پائیں گے ؟
یاد رہے کہ1987ء میں مانٹریال میں اوزون کی تہہ کو نقصان پہنچانے والی گیسوں کے اخراج کو کم کرنے کیلئے معاہدہ کیا گیاتھا۔ 1990ء اور 1992ء میں اسے مؤثر اور کارگر بنانے کیلئے عالمی سطح پر بڑے اجلاس بلائے گئے ۔ 1992ء میں اقوام متحدہ کے آب و ہوا کی تبدیلی کے فریم ورک کنونشن میں گلوبل وارمنگ کو کم کرنے کیلئے مختلف تجاویز زیربحث لائی گئیں۔ اقوام متحدہ کے جاپان میں ہونیوالے آب و ہوا کی تبدیلی کے تیسرے فریم ورک کنونشن میں 160 سے زائد ممالک نے ایک معاہدے پر دستخط کئے تھے جس کے تحت متعین کردہ اہداف میں اس ایجنڈے کو فوقیت دی گئی کہ گرین ہاؤس گیسیں جو کہ گلوبل وارمنگ کی سب سے بڑی وجہ ہیں ان کے اخراج کو کم سے کم کیا جائے گا لیکن فروری 2005ء سے اس معاہدے کو جب عملی جامہ پہنانے کا وقت آیا تو امریکہ نے اس کی توثیق سے انکار کر دیاتھا۔
گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج سے گلوبل وارمنگ میں اضافہ حقیقت میں اقوام عالم کو ایک سنگین وارننگ ہے جس سے روئے زمین پر پائے جانے والے تمام جانداروں کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ فضائی آلودگی میں اضافے کی وجہ سے اوزون کی حفاظتی تہہ کونقصان پہنچنے کے سبب مختلف تباہ کن شعاعیں زمین پر پہنچتی ہیں جس کی وجہ سے خوفناک بیماریاںجن میں سکن کینسر بھی شامل ہے وہ جنم لے رہی ہیں،ماہرین کے مطابق گرین ہائوس گیسوں میتھین، نائٹرس آکسائیڈ، کاربن ڈائی آکسائیڈ اور کلوروفلورو کاربنز کے اخراج کی وجہ سے اوزون کی حفاظتی تہہ کو بھی شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔گزشتہ 100 برس کے دوران دنیا کے دررجہ حرارت میں 0.6 درجے سینٹی گریڈ کا اضافہ ہوچکا اگر ماحول خراب کرنے کی سرگرمیاں اسی طرح جاری رہیں تو رواں صدی کے اختتام تک 6 ڈگری سینٹی گریڈ اضافے کی پیش گوئی کی گئی ہے جس سے دنیا کا نقشہ تبدیل ہوجائے گا ۔
اس وقت جنگوں سے زیادہ انسان کو درجہ حرارت میں اضافے سے خطرہ ہے کیونکہ سالانہ ہونے والی لاکھوں اموات آلودگی کے سبب ہوتی ہیں جن میں دمہ، کینسر، جلدی امراض، ملیریا، نفسیاتی امراض (جن کا تعلق شور سے ہے سب سے بڑا نقصان جو آئے روز دیکھنے میں آرہا ہے وہ بارشوں کا نہ ہونا یا بے موقع بارشوں کا برسنا ہے جس سے نہ صرف انسانی ہلاکتوں میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ فصلوں کی تباہی اور اس کے نتیجے میں غذائی قلت کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک دونوں پر پڑتا ہے لیکن ان تبدیلیوں کا سامنا اکثریت میں ترقی پذیر ممالک کو کرنا پڑرہا ہے۔پاکستان سمیت دنیا بھر میں سڑکوں پر دوڑتی دھواںچھوڑتی گاڑیاں بھی فضائی آلودگی میں اضافے کا بڑا سبب ہیں،گزشتہ 5سے10برس کے اعدادوشمار کا اگر جائزہ لیا جائے تویہ ثابت ہوتا ہے کہ شرح اموات میں اضافے کی بڑی وجہ فضائی آلودگی ہے،دوسری جانب صنعتی پیداوار بھی متاثر ہورہی ہے کیونکہ اکثر اشیاء کی تیاری میں مطلوب خام مال، زرعی شعبے سے حاصل ہوتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق اگر دیکھا جائے تو اس وقت پاکستان میں گرین ہائوسز گیسز کا سالانہ اخراج 40 کروڑ 50 لاکھ ٹن سالانہ ہے اور پاکستان ماحولیاتی تبدیلیوں سے سالانہ تقریباً ایک کھرب روپے کے لگ بھگ نقصان سے دوچارہے۔