اچانک اس آواز نے سب کو چونکا دیا تھا ۔وہ ایک بچے کی رونے کی آواز تھی ۔ وہ اس انداز سے رویا تھا جیسے وہ اس دنیا میں اکیلا رہ گیا ہو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
سب لوگ کھانا کھاتے کھاتے اچانک رک گئے تھے ۔ اس بچے کی آواز نے ہر ایک کو مضطرب کردیا تھا ۔یہ ایک شادی کا گھر تھا ۔ سب لوگ کھانا کھا رہے تھےاور خوب ہنسی مذاق ہو رہا تھا ۔بچے ادھر سے ادھر بھاگ دوڑ کر رہے تھے ۔چند بچوں کے ہاتھ ایک بلی لگ گئی تھی اور وہ اسی دوڑائے پھر رہے تھے ۔ اسی دوران وہ بلی موقع دیکھ کرقنات کے پیچھے ایک تنگ جگہ سے دوسری طرف فرار ہوگئی ۔
ایک بچہ اس بلی کے پیچھے گیا ۔لیکن بلی اس کے ہاتھ نہ آئے ۔بچہ بھی اس تنگ جگہ سے قناعت کی دوسری طرف نکل چکا تھا ۔اب جو اس نے مڑ کر دیکھا تو اس کو کوئی نظر نہ آیا اور اس نے زور زور سے رونا شروع کردیا اور یہی وہ آواز تھی جس نے سب کو اپنی طرف متوجہ کرلیا تھا ۔
قناعت کے دوسری طرف بیٹھے لوگوں نے آواز لگائی ۔اچھا آرہے ہیں ۔کچھ لوگ اٹھے بچے کو دیکھنے کیلئے اور باہر نکل کر بچے کو اپنے سے لگا لیا ۔بچہ بھی اپنے شناسا چہروں کو دیکھ کر خاموش ہوگیا اور کچھ دیر میں ہنسی کھیلنے لگا ۔
میں بیٹھا یہ منظر دیکھ رہا تھا ۔مجھے خیال آیا کہ ہم انسانوں کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ ہم بھی اس بچے کی طرح دنیا کے پیچھے بھاگتے رہتے ہیں اور اپنے آپ میں مگن رہتے ہیں۔لیکن پھر ایک وقت آتا ہے جب پریشانیاں ہمیں چاروں طرف سے گھیر لیتی ہیں اور ہم اپنے آپ کو بے بس اور تنہاں سمجھنے لگتے ہیں ۔ مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ہمت ہار بیٹھتے ہیں ۔ جیسے وہ بچہ ایک قناعت کے پیچھے چلا گیا تھا اور یہ سمجھ بیٹھا تھا کہ بس اب میں اکیلا رہ گیا ہوں۔
میرا کوئی بھی اپنا میرے ساتھ نہیں ۔یہی ہماری مثال ہے ۔ہم سمجھتے ہیں کہ بس اب ان پریشانیوں سے نکل نے کا کوئی راستہ نہیں ،اب کوئی امید نہیں کامیابی کی۔ اب کوئی ہمارا مہربان نہیں ۔
وہ بچہ تو بول نہیں سکتا تھا ۔ ہم تو بول سکتے ہیں نا۔ پھر کیوں ہم خاموش رہتے ہیں ۔ ہم کیوں اپنے رب سے مدد نہیں مانگتےاور اگر کچھ بول نہیں سکتے تو کم از کم اس بچے کی طرح رونا ہی شروع کردیں ۔
جب اس بچے کے رونے پر ہر شخص پریشان اور فکر مند ہوجاتا ہے تو کیا ہمارے رونے پر ہمارا خدا جس نے ہمیں پیدا کیا ،جس کے ہم بندے ہیں ،اور جو اپنے بندوں پر بہت ہی مہربان ہے وہ کیا ہماری طرف متوجہ نہیں ہوگا؟ وہ کیا ہمیں پریشانیوں سے نہیں نکالے گااور پریشانیاں بھی کیسی ۔اس قناعت جیسی جس کو دیکھ کر بچہ سمجھتا ہے کہ اب کوئی۔ راستہ نہیں اپنوں کے پاس جانے کا ۔لیکن جو بڑے ہیں وہ بہت آسانی اور پیار سے اس کو درست راستہ سے اندر لے آتے ہیں ۔
ہماری پریشانیاں جو ہمیں لگتا ہے کہ بہت زیادہ ہیں کوئی راستہ نہیں ان سے بچنے کا۔ ہمارا رب ان سب کو دیکھ رہا ہوتا ہے اور وہ خوب جانتا ہے کہ سہی راستہ کہاں سے ہے اور وہ بس انتظار میں ہوتا ہے کہ بندہ مجھے پکارے اور میں اس کو پریشانیوں سے نکال دوں ۔
لہذا ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہے اور نہ ہی ہمت ہارنی چاہے ۔ ہمارے ساتھ ہمارا خدا ہے۔ بہت مہر بان اور رحم کرنے والا ۔ بس ہم ہی اس کو نہیں پکارتے۔اس کو پکارے ۔اس کے سامنے روئیں وہ ضرور ہمیں پریشانیوں سے نکال کر چین اور سکون کی زندگی عطاء کرے گا ۔