آج سے پچیس،چھبیس سال پہلے مختلف ترقی یافتہ معاشروں میں بڑھتی آبادی پر قابو پانےکیلیے مختلف پروگرامز اور منصوبے متعارف کروائے جارہے تھے، اسوقت آبادی میں اضافے کو ہی دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ بنا کر دکھانے میں ذرائع ابلاغ ( پرنٹ / الیکٹرانک میڈیا ) کا اہم کردار رہا۔ وسائل کی کمی کا رونا اور ترقی کی راہوں پہ سرپٹ دوڑنے کیلیئے انسانوں کی تعداد محدود کرنا ضروری قرار دےدیا گیا۔
مقاصد اور نتائج سے آزاد اس مہم کے باعث مغربی معاشروں نے اسے تیزی سے اپنایا، اب وسائل اور صنعتی جدت کے عروج پر پہنچے ہوئے یہ ترقی یافتہ معاشرے بوڑھے ہوچکے۔ مغرب کی عورت آزاد زندگی کی مصنوعی چکاچوند کا شکار ہوئی تو بچے اپنے لیئے ایک اضافی بوجھ محسوس ہوئے۔آبادی قابو میں آئی اور نوجوان بوڑھے ہوگئے۔مگر ان کی جگہ لینے کیلیے نوجوانوں کی دوسری کھیپ اس تعداد میں تیار نہ ہوسکی جسکی معاشرے کو ضرورت تھی۔
نتیجتاََ ترقی پذیر ممالک سے لوگوں کو امیگریشن پلانز کے ذریعے اپنے ملک لا بسانے کا حربہ لایا گیا، کچھ عرصے کامیابی رہی، لیکن بنیادی مسئلہ جوں کا توں،
کاش کہ اہلِ فکر اس حسد کو سمجھنے کا حوصلہ پیدا کریں، ہمارے نوجوان جس تقابلی حسد کا نشانہ بن رہے ہیں، کئی محاذ کھل چکے ہیں ہمارے نوجوان طبقے کو تاراج کرنے کیلیئے جس میں صفِ اول کا محاذ میڈیا ہے، جس میں پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا شامل ہے۔
بے انتہا چابک دستی سے ذہنوں پر کمندیں کَسی جاچکی ہیں، عشق و عاشقی کا شغف , دین بیزاریت , تہذیب سے عار ، اخلاقیات کا مذاق اور خیر خواہی سے نفرت کا زہر میڈیا پروگرامز کے ذریعے قطرہ ، قطرہ انڈیلا جاتا رہا، آج لاہور یونیورسٹی کا واقعہ اس کا پہلا نتیجہ نہیں، اس سے پہلے بہت سے شرمناک واقعات قوم کا سر شرم سے جھکانے کیلیئے رونما ہوچکے، معصوم کلیاں مسلی جاچکیں، دور دراز علاقوں کے والدین نے اپنی بچیوں پر اعلٰی تعلیم کے حصول کا دَر یقیناََخود ہی بند کردیا ہوگا، یونیورسٹی اور کالجز کی تعلیم تک رسائ بہت سی خوبصورت , باحیا آنکھوں کا سراب بن کر رہ گئ ہوگی.. ایسی ذہن سازی کردی گئ کہ بہت سے حلقوں سے اس شرمناک اخلاقی کمزوری کا دفاع بھی ہوتا نظر آرہا۔
کیا اب کسی کو اس سرگرم محاذ کا مقصد سمجھ آیا ?? وہ محاذ جو گھر , گھر میں کھلا ہے، گیم شوز اور مارننگ شوز میں جسے اعتماد ( کانفیڈینس ) کے نام پر پروان چڑھایا جاتا رہا ہے، اب اس اعتماد کے ساتھ , ہر غیر اخلاقی پر ستائش کی تمنا لیئے ہمارےنوجوان، کیمرہ زدہ ماحول کے سحر میں گرفتار , ستاروں پر کمند ڈالنے کا کام مؤخر کرچکے، اب پارٹنرز کی تلاش ہے تعلیمی اداروں میں۔
تعلیمی درسگاہوں کے تقدس کی ایسی پامالی، کبھی ہمارے تصور میں نہ تھی،تربیت کا یہ فقدان کبھی قلب و ذہن سے نہ گزرا تھا، کالج انتظامیہ نے بے دخل کیا لیکن والدین میں تو شاید،سر پیٹنے کا حوصلہ بھی باقی نہیں۔اللہ کرے کہ آزاد رویوں کو مزید تقویت نہ دے۔