قطع نظر اس کے کہ رومان کی کتنی تعریفیں ہیں اور کن بنیادوں پر وضع کی گئ ہیں یا اس کا حقیقی مطلب کیا ہے؟میں حقیر پر تقصیر،ناکس و ناچیز ایک اپنی ذاتی تعریف وضع کرتی ہوں کہ ہر وہ شے جس سے متاثر ہو کر ہم اس کے اسرار وا کرنے کوشش کرنے لگیں،یا اس کو سوچنے لگیں رومان ہے۔
کائنات میں رومان تخلیق آدم سے شروع ہوتا ہے
وَ اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةًؕ-قَالُوْۤا اَتَجْعَلُ فِیْهَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْهَا وَ یَسْفِكُ الدِّمَآءَۚ-وَ نَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَ نُقَدِّسُ لَكَؕ-قَالَ اِنِّیْۤ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ(۳۰)
اور یاد کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے فرمایامیں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں بولے کیا ایسے کو نائب کرے گا جو اس میں فساد پھیلائے اور خوں ریزیاں کرے اور ہم تیری تسبیح کرتے اور تیری پاکی بولتے ہیں فرمایا مجھے معلوم ہے جو تم نہیں جانتے۔
وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الۡاَسۡمَآءَ کُلَّہَا ثُمَّ عَرَضَہُمۡ عَلَی الۡمَلٰٓئِکَۃِ ۙ فَقَالَ اَنۡۢبِـُٔوۡنِیۡ بِاَسۡمَآءِ ہٰۤؤُلَآءِ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ۔
اور (اللہ نے) آدم کو تمام نام سکھا دیے، پھر انہیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا پھر فرمایا : اگر تم سچے ہو تو مجھے ان کے نام بتاؤ۔
قَالُوۡا سُبۡحٰنَكَ لَا عِلۡمَ لَنَآ اِلَّا مَا عَلَّمۡتَنَا ؕ اِنَّكَ اَنۡتَ الۡعَلِيۡمُ الۡحَكِيۡمُ
(فرشتوں نے عرض کیا)بولے پاک ہے تو ہمیں کچھ علم نہیں مگر جتنا تو نے ہمیں سکھایا بے شک تو ہی علم و حکمت والا ہے۔
جب فرشتے حیران ہوتے ہیں اور اللہ فخر کرتا ہے اور پھر وہ ان چیزوں کے نام حضرت آدم علیہ سے سنواتا ہے،جن پر فرشتوں نے معذرت فرمائی۔
اور صرف اس پر ہی بس نہیں کیا بلکہ فرمایا
فَاِذَا سَوَّیْتُهٗ وَ نَفَخْتُ فِیْهِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَهٗ سٰجِدِیْنَ‘‘
’’جب میں اسے ٹھیک بنالوں اوراس میں اپنی طرف سے روح پھونک دوں اس وقت تم اس کے لیے سجدہ میں گرنا۔سورہ الحجر
ساتھ ہی رومان کی مجازی قسم بھی سامنے آئی جس میں شجر ممنوعہ کو حاصل کرنے کے بعد بابا آدم اور اماں حوا زمین پر اتارے گئے سو طے یہ پایا کہ رومان کی سیدھی لکیر پر چلو گے تو کامیاب ہوگے اور رہتی دنیا تک کے لیے اصول زندگی مقرر کر کے زندگی کو ضابطہ کا پابند کردیا گیا۔سو سیدھی لکیر کو جوں ہی بابا آدم و حوا نے دیکھا تو فورا تائب ہوئے اور ان کی توبہ قبول کی گئ اور ایک عظیم خانوادے کی بنیاد رکھی گئ۔
رومان کی ٹیڑھی لکیر کو جاننا ہے تو ابلیس کی مثال سامنے ہے کہ وہ مٹی سے بنے پتلے کی افضلیت کے اسرار کی تہہ تک پہنچنے کی خواہش میں ناکام ہوا تو منکر و مردود کہلایا۔
کائنات کے اس پہلے رومان کی حدیں زمان آخر سے ملتی ہیں کہ جہاں ایک غار میں غور و فکر کر کے راز ہیست و نیست کے اصل کے خواہاں ہیں،جس بلندی پر چڑھتے چڑھتے کشف کے کئ مقام آتے ہیں اگر آپ دل والے ہیں۔ تو وہ جن کے لیے کائنات بنائ گئ ان کو وہ مقام محمود کیوں نہ ملتا۔خالق کو پانے کے اسرار تک پہنچنے کی خواہش کرنے والے کے پاس جبرئیل امین کیوں نہ آتے اور پھر رومان سے بھر پور سب سے پہلا لفظ کہ جس کے آگے سمندر اور دریا خشک ہوجاتے اور اپنی بے کرانی کا بوجھ اتارتے نظر آتے ہیں،اللہ کے حکم سے راز ہائے خداوندی کے امین کو پڑھاتے ہیں “اقراء”
اور مکہ کی بے آب وگیاہ وادی اس حسین صوت میں ہم آہنگ ہوجاتی ہے کہ جب آقا صہ نے کہا ہوگا کہ مجھے پڑھنا نہیں آتا تو جبرئیل سمیت پہاڑ بادل آسمان سب اقراء پکارتے ہوں گے۔
یوں تو حضرت خدیجہ رضہ کا آپ کے لیے طعام لانا بھی کسی رومان سے کم نہیں مگر اونچی ،مشکل اور نازک چڑھائیوں کے دوران بھی سیدھی لکیر۔
اور جب رومان اتنے اعلی پائے کا ہو تو کیوں نہ غار ثور آئے ؟کیوں نہ ہجرت کی رات بستر پر کوئی اور لٹا دیا جائے؟اور کیوں نہ شعب ابی طالب کی گھاٹیاں منتظر ہوں۔
اس عظیم کائنات کی ہر شے اسی رشتے میں بندھی ہوئی ہے۔مظاہر فطرت اس تعلق کی نشانیاں بھی ہیں اور جکڑبندیاں بھی۔جب سورج نکلنے سے غروب ہونے تک کا منظر؟جب بادل چھاجانے سے لے کر کھل جانے تک کا منظر آپ کو متوجہ کرے۔جب برستی بارش آپ کو محسور کردے،جب صحرا کے سناٹے آپ کو مزین کمروں کے مقابلے میں بھانے لگیں جب آگ برساتے ٹیلے آپ کو مکیف کمروں سے زیادہ سرور دینے لگیں تو کیا اسے آپ رومان کا نام نہیں دیں گے؟رومان بھی ایسا کہ جو آپ کو بار بار یاد دلاتا ہو
جگ میں آکر ادھر ادھر دیکھا
تو ہی آیا نظر جدھر دیکھا
جب کبھی دور افق پر ڈوبتے سورج کو دیکھ کر آپ کہہ اٹھیں کہ
یار کو ہم نے جا بجا دیکھا
کہیں ظاہر کہیں چھپا دیکھا
جب کبھی چمکتے تاروں کی تنک تابی آپ کے دل پر حقیقت کا کوئ ایسا در وا کردے کہ آپ کو اللہ رب العالمین کی قربت میسر آنے لگے اور آپ کہہ اٹھیں کہ
ہزار جام تصدق ہزار میخانے
نگاہ یار کی لذت شراب کیا جانے
دراصل خالق حقیقی سے محبت کی شراب ہی اصل رومان ہے جس کی خاطر دنیا کے کامل بشر کی تخلیق کی گئ کہ وحدہ لاشریک کو محبوب خالص اور محبوب خالص کو معبود خالص مل سکے۔
وحدہ لاشریک کے عشق کی لذت کا حقیقی ذائقہ مل سکے جس کے نتیجے میں ایک کائنات عدم سے وجود میں لائ جائے اور کن اور فیکن میں عظیم ترین اسرار ہائے حیات سما کر رومان کی ابتدا و انتہا بنا دیا جائے۔
کہ درحقیقت اس رومان کی طاقت سے دنیا کو جاء الحق و ذھق الباطل کا معجزہ دکھانا منظور تھا ۔
سو وہ ہجرت ہو،صلح حدیبیہ یا فتح مکہ یا اذیت کو حق تعالی کی خاطر قبول کیے جانے کے مقامات، یہ دراصل ایک ایسا ہی راز ہے جس کے رومان کو برگزیدہ اور چنیدہ ہستیوں کے سوا کوئ نہ جان سکا ہے۔مان لینے اور جان لینے میں بہت فرق ہوتا ہے شاید یہی وجہ ہے کہ مان لینے والے جان لینے والوں سے نیچے وجود رکھتے ہیں اور رومان کو ایک کمتر شے سمجھتے ہیں۔
حالانکہ درحقیقت کائنات کی بنیاد ہی رومان پر رکھی گئ ہے تبھی تو ایک عالم غیب بنایا گیا اور اس کی جستجو وجود خاکی کا مسکن بنائ گئ۔
دنیا کے مختلف اذہان اگر رومان کو ایک نظریہ بنا کر پیش کرتے ہیں تو انسان کو اس کے نفس کی حقیقت یہ بتاتی ہے کہ یہ محض الفاظ کا مجموعہ یا جھوٹے سچے مفکرین کی کی تعریفوں سے وجود میں آنے والا نظریہ نہیں بلکہ حق ہے اور اس حق کا پہلا لفظ لا ہے آخری تسلیم و رضا۔
اور یہ لا اور تسلیم و رضا ہی وجود خاکی کو غور و فکر کی وہ حرارت عطا کرتے ہیں کہ جس سے وہ سیدھی لکیر کو پانے کے قابل ہوتا ہے اور یہ سیدھی لکیر ایک مستحکم خاندان کو وجود میں لاتی ہے۔