جیسے ایک لڑکی سوچتی ہے کہ میرا ہوانے والا شوہر کیسا ہو اور اس میں کیا کیا خوبیاں ہوں تو ظاہر ہے یہی خیال سب سے پہلے آتا ہے کہ وہ سب سے پہلے نیک ہو، امین ہو، میرے ساتھ اور میرے لوگوں کے ساتھ مخلص ہو، یعنی اگلی زندگی میں ہمیشہ ہماری جیت ہو چیٹ نہ ہو۔ بالکل اسی طرح ایک لڑکا نجانے کتنا ہی سوچتا ہوگا؟ کیا چاہتا ہوگا؟ کہ اس کی ہونے والی بیوی پہلے تو بہت خوبصورت ہو، مالدار ہو، اچھے اونچے خاندن کی ہو یا شاید اعلیٰ عہدے پر فائز ہو یہ تو خیر شیطانی خیالات ہیں جو آتے بھی رہتے ہیں لا حول ولا قوۃ غائب بھی ہو جاتے ہیں، لیکن! اگر سچی بات پوچھی جائے نا تو ہر لڑکے کے دل میں یہی بات ہوتی ہے ۔ تہذیب کی بنیاد، “گھر کا آرام و سکون ” ماں باپ کیلئے باعث ِعزت وخدمت اور خود اس کیلئے پر سکون زندگی دینے والی اور اسکا گھر آباد کرنے والی ایک ایسی نیک صفت زوجہ ہو جو میرے گھر کو ہمیشہ سکون کا گہوارہ بنائے ۔ جو واقعی ایک روشنی کی طرح اس کے وجود سے لیکر گھر اور آنے والی نسلوں کو بھی اپنی نیکی اور پاکبازی سے منور کردے، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ مٹی کے گھروندے کو بھی جو لڑکی اپنی محبت خلوص محنت اور قربانیوں سے جنت بنادے اور اپنی نہ صرف ذمہ داریوں کا احساس کرے بلکہ ہر دم اسے بجالانے کیلئے تیار ہو تو ظاہر ہے اسکا بڑھتا خاندان اس کیلئے تسکین کا باعث ہوگا ۔
ایسی ہی نیک بیویوں کے بارے میں کہا گیا ہے کہ “نیک بیوی بہترین متاع ہیں ” کیونکہ مرد کا دل مطمئن اور پر اعتماد ہو تو سمجھو جس نے اس کی زندگی میں اطمینان دیا، سکھ دیا اور اسکا اعتماد حاصل کیا وہ ہی تو اس کی کل متاع ہے ۔ یوں تو ہر روپ میں ہی اس کا کردار اہم ہے چاہے بیٹی ہو بہن ہو ماں ہو مگر بیوی کے روپ میں اسکا کردار انتہائی منفرد اور مثالی ہونا چاہیے، جو گھر ہی نہ بنائے بلکہ گھر کو گلستان بنادے ۔ اپنے نیک اعمال اخلاق کردار اور روئیے سے ہر دلعزیز ہو اور یہ جب ہی ممکن ہے کہ وہ نیک بخت خدا خوفی رکھنے والی، صنفِ نازک نسلِ نو کی تیاری اور اپنے شوہر کے لئے ہر دم مخلص ہو کر بچوں کی ایسی تربیت کرتی ہے جو بندوں کو انسان بناتی ہے۔
ظاہر ہے ایک مہذب پڑھے لکھے لڑکے سے لیکر بے کار ان پڑھ فالتو لڑکے کی بھی یہی تو خواہش اور کوشش ہو گی چاہے وہ خود کچھ بھی ہو مگر اس کی بیوی نیک ہو۔ ابھی حال ہی میں ایک تحریر پڑھی تھی جس میں ایک مجبور باپ نے میڈیا کو الزام دیتے ہوئے لکھا تھا کہ وہ ایک سالہ بچی کا باپ ہے جبکہ اس کی بیوی ہتے سے اکھڑ گئی ہے سارا سارا دن موبائل پر رہتی ہے، عشق، معشوق کی باتیں کرتی ہے بلکہ صاف کہتی ہے کہ مجھے طلاق دے دو میں نے تمہارے ساتھ نہیں رہنا ! جبکہ باپ بیچارہ اس ایک سالہ چھوٹی بچی کی خاطر اس کے ہزار نخرے برداشت کر رہا ہے مگر وہ ہے کہ بدچلن، بد کردار محض ہمارے ملک میں قانونِ الٰہی کے نافذ نہ ہونے کی صورت میں میڈیا کی ماری اس کی زندگی کی سب سے بڑی دشواری بلکہ پوری نسل کی بدنامی کی جارہی ہے، مگر احساسِ ذمہ داری ہے نہ ہی خدا خوفی نہ مرد کا لحاظ، نہ بچی کا! آج کل کا چلن بنتا جا رہا ہے مرد تو پھرآزاد تصور کیا جاتا ہے جو اگرچہ غلط ہے وہ بھی قانون اسی کے شکنجے میں بندھا ہوا ذمہ دار بندہ ہے ۔ مگر یہ پڑھ کر بڑا دکھ ہوا کہ کیسے ڈراموں کے اثرات محض ( پیسہ کماتے یہ ادارے ٹی وی چینلز ) کس طرح گھروں میں خاندانوں میں برائی پھیلا رہے ہیں اور فساد کی جڑ بنے ہوئے ہیں مگر دوسری طرف دیکھیے کہ وہی اس نوجوان کی والدہ یا کوئی بھی درد دل رکھنے والی نیک عورت کیسے انہی طرح کے بچوں کی محبت سے پیار سے پرورش کرکے معاشرے کا کارآمد فرد بناتی ہیں ۔ مرد کیلئے کتنا مشکل ہوجاتا ہے ایک غیر ذمہ دار بے حس ماں کے ذمے اپنے لخت جگر کو دینا ، اپنے بیٹے کو دینا !!
اولاد جس کی خاطر وہ کیا کچھ نہیں کرتا کتنی محنت اور تگ و دو نہیں کرتا !!کیسے ایسی عورتوں کو اپنی متاع کہہ سکتے ہیں ؟ میں نے تو ایسی بھی عورتیں دیکھی ہیں جو کم عمر کم تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود نیک سیرت اتنی ہیں کہ ہر طرح کا تعاون کرتی ہیں ۔ اپنے شوہروں کی پہلی اولادوں تک کو نیک اٹھاتی ہیں بلکہ بعض دفعہ تو یہی نیک سیرت لڑکیاں اپنے بگڑے ہوئے شوہروں اور انکی ناخلف اولادوں کو بھی اپنی اولادوں کی طرح منصفانہ تربیت دے کر سدھار کی طرف لاتے لاتے خود دنیا سے ہی گزر جاتی ہیں مگر گزرنے والے ہر لمحے میں کردار سازی اور تہذیب انسانیت کہ وہ آبیاری کرجاتی ہیں جنہیں نسلیں یاد رکھتی ہیں ۔ میری بھی ایک عزیزہ نے ایک ایک آدمی سے شادی کی تھی جو دو بڑے بچوں کا باپ تھا مگر ماں باپ کا دل جگر دیکھیں ! بچے بھی 15سال سے بڑے تھے بیوی مرچکی تھی مگر اس مرد نے اپنی کنواری بیٹی سے شادی کردوادی جن سے تین بیٹیاں تھیں، تین بیٹے اور دو بیٹیاں ہوئیں مگر اس عورت نے اچھی طرح سب کو پالا، چھوٹا بیٹا ابھی دس گیارہ سال کا تھا۔ باقی بچے بچیاں اچھی پڑھائی پڑھ رہی تھیں، پہلی بیٹی کی تو شادی کردی تھی، B.Aکے بعد جبکہ دوسری بیٹی جس کی وہ سگی ماں تھی منگنی کر چکی تھی کہ اچانک بلڈ پریشر ہائی ہوا اور وہ انتقال فرما گئیں ۔ انکے شوہر اس قدر پریشان تھے اور ہر وقت یہی کہتے تھے کہ واقعی بیوی اور وہ بھی نیک بیوی ہی ہر مرد کی کل متاع ہے، پھر ایک سال میں ان صاحب کا بھی انتقال ہو گیا تھا اللہ مغفرت فرمائے ۔ آمین ۔ مگر آفرین ہے اس بیٹے پر جس نے اگر چہ اس کی کوکھ سے جنم نہیں لیا مگر اپنے سارے بہن بھائیوں کو سمیٹ کر رکھا تعلیم مکمل کر وا کر وقت پر بہنوں کی شادیاں بھی کیں اگر چہ وہ خود شادی والا تھا مگر بے اولاد!! یہ تو رب کے کام ہیں کبھی شکوے کرتے نہ سنا، پھر دیکھیں جب بھائی بڑے ہوئے تو نہ صرف ان کو اپنے باپ کا گھر واپس دلوایا بلکہ اپنے باپ کے ہی گھر میں اپنی سوتیلی ماں کے بیٹے کی شادی کروائی تاکہ پردگی متاثر نہ ہو! سبحان اللہ بس یہی نیک سوچ ہے ۔ وہ اگر چہ کینسر کے مریض تھے مگر اللہ نے ان کو اپنے بہن بھائیوں کی خوشیاں دکھائیں اور یہ حسین کام لیا ۔ کہتے ہیں نا کہ”کر بھلا ہو بھلا ” اپنی سوتیلی ماں سے بے حد متاثر وہ بیٹا اپنی بیوی کو بھی کل متاع گرانتا ہے کیونکہ بہن بھائیوں کی تعلیم و تربیت میں اس نیک صفت بیوی نے پر خلوص تعاون کرکے اپنے گھر کو ہی نہیں مستحکم کیا بلکہ اپنے خاندان گویا اس معاشرے کو مستحکم کیا ۔ سبحان اللہ ، اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہر مرد کو نیک بیوی عطا فرمائے اور ہر مرد کو عورتوں کے حق میں خوش نصیب بنا ئے ۔ آمین