پکار

انسان کامیاب اسی وقت ہوتا ہے جب مکمل طور پر صحتیاب ہو۔ اک صحتمند زندگی کے لیے صحتمند دماغ اور دماغی حالت بہت ضروری ہے۔ اس کامیابی کو مکمل کرنے میں دماغٰی حالت معاون کا کردار ادا کرتی ہے۔ انسان چاہے جتنا بھی دولت مند ہوجائے لیکن اگر دماغی طور صحتمند نہیں ہے تو اسے وہ سکون کہیں بھی میسر نہ ہوگا جو اسے دماغی طور پر صحتمند ہونے پر ملتا ہے۔

آج کے دور میں جہاں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی نے اپنے پنجے گاڑ لیے ہیں اور انسان کو فائدہ فراہم کر رہی ہے وہیں انسان کو کئی اعتبار سے تنہا بھی کر رہی ہے۔ اسے اپنے ہی آپ سے الگ کر رہی ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ آج انسان دماغی طور پر صحتمند نہیں۔ پرانے ادوار میں انسانوں میں ذہنی دباؤ، اضطراب، سمیت دیگر دماغی بیماریاں غیر معمولی تھیں بلکہ ناپید تھیں، لیکن اب قدرے معمول بنتی جارہی ہیں۔ لیکن افسوس ناک صورتحال یہ بھی ہے کہ اس دماغی بیماری کو بیماری تصور ہی نہیں کیا جاتا اور انسان اندر ہی اندر گھٹ گھٹ کر جی رہا ہوتا ہے، اور آخر میں اپنی  ہی زندگی کا خاتمہ کرلیتا ہے یا پھر اپنی زندگی برباد کرلیتا ہے۔

اس بیماری کی پیچیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ امریکہ میں ہر پانچ میں سے ایک انسان دماغی بیماری کا شکار ہے۔ جبکہ ہرپچیس میں سے ایک انسان تشویشناک حد تک اس بیماری سے دوچار ہے۔ جبکہ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں دیگر صحت کے حوالے سےساٹھ تا ننانوے فیصد اہمیت حاصل ہے جبکہ دماغی بیماریوں اور سہولت کے لحاظ سے صرف صفر تا چار فیصد ہی اہمیت حاصل ہے۔

یہ بات بھی قابل زکر ہے کہ صرف گیارہ فیصد ہسپتال ہی پاکستان میں دماغی بیماری اور اس کے علاج کے حوالے سے کام کر رہے ہیں بہ نسبت نواسی فیصد وہ ہسپتال جو کہ دیگر بیماریوں کے حوالے سے کام کر رہے ہیں۔ اس بات سے بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں دماغی بیماری کو کس حد تک سنجیدہ لیا جاتا ہے۔

اس ضمن میں آگاہی کے لیے کئی مہمات  بھی چلائی جاتی رہی ہیں اور چل رہی ہیں لیکن اب بھی اس بیماری کو سنجیدہ نہیں لیا جاتا۔ ایک انسان جو کہ اپنے گھر،سماجی مسائل اورمذہبی یا معاشی لحاظ سے کسی بھی طرح سے دباؤ کا شکار ہے، اسے بات کو سمجھنا ہوگا کہ یہ صورتحال عام ہوتی ہے اور کسی بھی عام بیماری کی طرح اس دماغی بیماری کا بھی معائنہ ممکن ہے۔

اب بات یہاں یہ بھی ہے کہ مختلف قسم کی دماغی بیماریاں ہیں جو کہ عین ممکن ہے کہ آپ میں ہوں۔ جیسے کہ ذہنی دباؤ، اضطراب، پوسٹ ٹرایمیٹک اسٹریس، آبسیسو کپملسیو ڈس آرڈر، بائ پولر ڈس آرڈر، آٹینشن ڈیفیسٹ ہائپر ایکٹویٹی ڈس آرڈر اور دیگر۔ یہ سب وہ بیماریاں ہیں جو کہ آج کل زبان زد عام ہیں بس فرق یہ ہے کہ اگر آپ کو اللہ نہ کرے کینسر ہوجائے توفورا بھاگے بھاگے ہسپتال پہنچ جائیں گے مگر اگر آپ کا موڈ کسی بھی وقت تبدیل ہوجائے، زرا زرا سی بات پر آپ چڑ جائیں تو یہ آپ میں بائپولر ڈس آرڈر کی نشانٰی ہے مگر چونکہ ہم اسے لاعلاج تصور کرتے ہیں تو اہمیت ہی نہیں دیتے۔

اب یہاں یہ بات بھی بہت اہمیت کی حامل ہے کہ یہ دماغی بیماریاں اس وقت شدت اختیار کر جاتی ہیں جب آپ کسی بھی قسم کے احساس محرومی، احساس کمتری یا ناانصافی کا شکار ہوں تو آپ اپنے لیے کوئی دوسرا راستہ تلاش کرتے ہیں جس سے آپ کو سکون ملتا ہے۔ کچھ وقت کو وہ سکون اور راحت دیتا ہے مگر پھر وہ سکون آپ کا نشہ بن جاتا ہے اور پھر وہی عمل آپ دہراتے ہو، جس سے آپ اس عمل کے یا اس چیز کے عادی بن جاتے ہو۔

جب آپ کا کیریئر داؤ پر لگا ہو یا پھر مستقبل میں کوئی بھی روشن ستارہ چمکتا ہوا نظر نہ آئے تو اس صورتحل میں اک بندہ جس صورتحال سے گزرتا ہے وہ انتہائی خوفناک ہوتی ہے لیکن اگر کسی کو اپنی رام کہانی سنانے سے اس خوفناک صورتحال کو کسی حد تک کم کیا جاسکتا ہے تو یہ عمل کسی کی جان تو بچا ہی سکتا ہے، مگر یہ خوفناک صورتحال اس وقت شدید خوفناک ہوجاتی ہے جب کوئ آپ کا ساتھ دینے کے بجائے آپ پر کالے بادل کی طرح چھا جائے اور اندھیرا ہی اندھیرا سامنے ہو۔

اکثر طالب علم اپنی جان کا خاتمہ کرلیتے ہیں کیونکہ جب انہیں اس چیز میں ڈھلنے پر مجبور کیا جاتا ہے جس کے لیے وہ تیار نہیں تھے تو وہ مجبورا یا تو اپنے ساتھ ناانصافی پر خاموش رہ کر سہنے کی کوشش کرتے ہیں یا پھر موت کو گلے لگالیتے ہیں۔ عامر خان کی تھری ایڈٰئٹس بھی کچھ ایسی ہی ہے جس میں اک ہونہار طاب علم کو خودکشی کرتے دکھایا گیا ہے۔

اسی لیے سب سے پہلے جو عمل آپ کو اس دماغی بیماریوں سے بچاتا ہے وہ ہے پکار، یعنی اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافی، محرومی اور اپنے دکھ  کو اپنے کسی خاص دوست، یا گھر والوں سے بانٹیں اور مسائل کا حل بات چیت سے  ہی نکالا جاتا ہے۔ اپنے ہاتھ کاٹنے سے، لوگوں کے سامنے ایک مختلف روپ دکھانے سے، تسکین روح کی خاطر کسی بھی حد تک جانا، یا پھر زرا زرا سی بات پر بھڑک جانا یہ سب وقتی طور پر آپ کو لوگوں کے لیے ایک موضوع تو دے دینگے، لیکن وقتی ہی ہوگا اور تماشا بنے گا وہ الگ۔

دماغ بیماریوں کا ہونا عام ہے تو سب سے پہلے اسکی وجہ خود سے تلاش کرنے کی کوشش کریں یا کسی ایسے رازدان کو اپنے مسائل اور دکھ بانٹیں جو کہ آپ کو صحیح مشورہ دے۔ اور پھر ڈاکٹر تو ہیں ہی آپ کے لیے۔

اور دین نے تو ہر مسئلے اور اس  کے حل کو کھول کھول کر قرآن میں بیان فرمایا ہے۔

اور دلوں کا سکون تو اللہ کے ذکر میں ہی ہے۔(الرعد)