مستحکم خاندان کے ضامن مرد و عورت‎

زمانہ قدیم میں مختلف مذاہب اور معاشروں میں عورت کو کمتر، ابتر اور مرکز گناہ سمجھا جاتا رہا، اس کے لیے نہ عزت تھی نہ اس کی کوئی حیثیت تھی۔

یونانی فلسفی سقراط کے مطابق!

“’عورت سے زیادہ فتنہ و فساد کی چیز دنیا میں کوئی نہیں، وہ دفلی کا درخت ہے کہ بظاہر بہت خوبصورت معلوم ہوتا ہے لیکن اگر چڑیا اُس کو کھا لیتی ہے تو وہ مر جاتی ہے۔

زمانہ قدیم میں ایک عرصے تک اس بات پر بحث ہوتی رہی کہ کیا عورت میں بھی روح ہوتی ہے ؟ اگر اس میں روح ہوتی ہے تو یہ انسانی روح ہے یا حیوانی روح؟ اوراگر انسانی روح ہے تومرد کے مقابلے میں اس کا صحیح معاشرتی مقام کیا ہے؟

یعنی عورت کو اس کے مقام و مرتبے سے گرانے کی اس آخری حد کے بعد کیا بچ جائے گا کہ جب اس کے روح ہونے یا انسانی اور حیوانی روح ہونے پر بحث چل رہی ہے۔

تنزلی کا یہی عالم روم میں بھی تھا جہاں عورت کی بے کسی پر تمام مرد نیرو بن کر بانسری بجاتے رہے۔

مولاناسیدجلال الدین عمری  کے مطابق روم میں عورت کا مقصد خدمت اور چاکری سمجھا جاتا تھا، مرد اسی غرض سے شادی کرتا تھا کہ بیوی سے فائدہ اُٹھا سکے۔وہ کسی عہدے کی اہل نہیں سمجھی جاتی تھی، حتی کہ اس کی گواہی تک کا اعتبار نہ تھا۔

قدیم ہندی زمانے میں عورت شوہر کے ساتھ ہی ستی کردی جاتی تھی، عورت باعث شرم اور باعث آزار سمجھی جاتی تھی۔وہ صرف ایک کھلونا تھی اس کی نہ سماجی حیثیت تھی نہ مذہبی۔عورت کی بے بسی،بے کسی اور اور اہانت کو دیکھنا ہو تو اب بھی جدید ہندوستانی معاشرہ دیکھا جاسکتا ہے۔

پاکستان میں جن خاندانوں میں عورت کے حقوق غصب کرنے کا سلسلہ جاری ہے وہ ہندوستانی سوچ و فکر کا ہی شاخسانہ ہے۔

انیسویں صدی کے صنعتی انقلاب سے قبل یورپی معاشرے میں بھی عورت کو گناہ کی دیوی اور شروفساد کا منبع سمجھا جاتا تھا۔غرض کہ قدیم ایرانی،مصری،عیسائی،یہودی،ہندی تمام معاشروں میں عورت کی حیثیت ایک استعمال کی شے سے زیادہ نہ تھی اور عورت  کے پیدائشی گناہ گار ہونے کا تصور تمام ہی معاشروں میں یکساں تھا۔زمانہ اسلام سے قبل عرب کے دور جاہلیت میں بیٹیاں زندہ درگور کردی جاتی تھیں۔

لیکن پھر خالق کائنات کو صنف نازک پر رحم آیا اور نبی مہربان صہ کے کاندھوں پر بار نبوت کی بھاری اور اہم ترین بلکہ عظیم الشان ذمہ داری کے ساتھ ہی قدریں بدل گئیں۔

 یوں آقائے دو جہاں صہ نے بیٹیوں کو زندگی کی نوید سنائی۔اب وہ شخص بھی روتا ہے جس نے اپنے ہاتھوں اپنی بیٹی کو دفن کیا تھا۔

اب فرمادیا گیا ہے کہ جنت اور قربت بیٹی کی اچھی تربیت و پرورش کے مرہون منت ہیں۔وہ جو کل تک زحمت قرار دی جاتی تھی آج کاشانہ نبوت کے سائے تلے رحمت قرار پائی۔بیٹی،بیوی بہن اور ماں کے حقوق مقرر ہوئے،زمین و آسمان اس انقلاب پر گنگ تھے۔ جو اب بھی عقل کے اندھے بنے ہوئے تھے شرمائے جارہے تھے مگر یہاں تو بساط ہی الٹی جاچکی ہے۔ساقی کوثر حضرت فاطمہ رضہ کی تعظیم کے لیے کھڑے ہوجاتے ہیں تو کبھی منہ بولی بہن کے پاس خود چل کر جانے کی خواہش کا اظہار فرماتے-اور ان کے ایک اشارے پر صاد فرماتے۔اپنی حیات پاک کے ہر عمل سے اللہ کے رسول صہ عورت کی تکریم کو ثابت کر رہے ہیں کہ!

حضرت عائشہ رضہ کو حجرے کے دروازے پر کھڑے ہو کر اپنی چادر میں چھپاتے ہیں تاکہ وہ حبشیوں کا کھیل دیکھ سکیں۔

اللہ رب العالمین کی وحی آپ صہ پر اترتی ہے!

اورکشادگی والا اپنی کشادگی میں سے خرچ کرے اورجس پر رزق کی تنگی ہو اسے جو کچھ اللہ تعالی نے دیا ہے اس میں سے خرچ کرنا چاہيے  الطلاق ( 7 )

غرض کہ قرآن و سنت سے بارہا مرد کو عورت کی تکریم کا پابند کیا جارہا ہے۔

اب وہ مکنون ہے،یاقوت والمرجان ہے،حورعین ہے۔

اس وقت جب استحکام خاندان کی مہم زوروں پر ہے اور ہم مستحکم خاندان اور مضبوط معاشرے کے حوالے سے عورت کے کردار پر مستقل بات کر رہے ہیں تو ہمیں جان لینا چاہیےاور مان بھی لینا چاہیے کہ اس مضبوط و مستحکم خاندان کا قوام بہرحال مرد ہے جس کے ناتے اس کی بھی بڑی بھاری ذمہ داریاں ہیں اگر وہ اپنی ذمہ داریوں سے غفلت برتے گا تو اکیلی عورت کے بل پر مستحکم خاندان وجود میں آسکتا ہے اور نہ معاشرہ۔لہذا ایک خاندان کو مستحکم کرنے اور مضبوط بنانے میں ایک مرد کا کردار بھی اتنا ہی اہم ہے جتنا عورت کا۔

اب ہمیں اس فریب سے نکلنا ہوگا کہ گھر صرف عورت بناتی ہے۔یہ بات حقیقت ہے کہ گھر عورت سے بنتا ہے مگر اس کو بنانے کے وسائل فراہم کرنا کلی طور پر مرد کی ذمہ داری ہے الا یہ کہ عورت سہولت کے ساتھ اور اپنی خوشی سے کچھ کر سکے۔خواتین کی خاندان کو مضبوط بنانے کے حوالے سے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ مرد کو” تم کماؤ اور میں بناؤں”کی اہمیت سے آگاہ کریں۔مائیں اپنے بیٹوں کی تربیت اس نہج پر کریں کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو اپنی غیرت کا معاملہ سمجھے نہ کہ غیر حقیقی معاملات میں غیرت دکھا کر نام نہاد مردانگی کا مظاہرہ کرے۔

آج ہمیں ایک مستحکم معاشرہ درکار ہے تو اس فریب سے نکلنا ہوگا کہ عورت خانگی زندگی کے اندرونی و بیرونی مسائل سے اکیلے ہی نمٹ سکتی ہے۔ اور اس ضمن میں مرد کو کھلی چھوٹ دیے جاتے رہنے سے بھی انکار کرنا ہوگا۔مرد کو نان نفقہ اور گھر کی بنیادی ضرورت کی اشیاء سے لے کر تمام اہم مسائل میں اپنا مکمل کردار ادا کرنے والا ہونا چاہیے تاکہ عورت عورت رہے اور مرد۔

ہم جن معاشروں میں عورت کی آزادی کے نعرے آج دیکھ رہے ہیں وہ دراصل وہی معاشرے ہیں جہاں عورت ظلم کی چکی میں پس رہی تھی مگر بدقسمتی سے ان معاشروں میں غلامی سے آزادی کا سفر جس راستے سے شروع ہوا اس کی کوئی واضح منزل نہ تھی اور یوں وہاں کی عورت دوہری غلامی کا شکار ہوئی۔

آزادی کے یہ پر فریب نعرے مسلم معاشروں میں بھی اس وقت اپنا کام دکھانے لگے جب اسلام کے دیے ہوئے حقوق عورت کو میسر نہ تھے۔اور یوں خاندان کمزور ہوتے چلے گئے،تنزلی کا شکار ہوتے چلے گئے۔غلط فہمی کا زہر صحیح راستہ نہ ملنے کی وجہ سے کمزور ذہن رکھنے والی خواتین کے اذہان میں سرایت کرتا گیا اور یوں مسلم معاشروں میں کٹھ پتلی خواتین کا طبقہ وجود میں آگیا جس کے اثرات بد کسی نہ کسی حد تک نئ نسل کو برگشتہ و گمراہ کر رہے ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ واپسی کا راستہ کہاں ہے؟

واپسی کا راستہ اب بھی بہت آسان ہے۔ضرورت ہے پختہ عزم اور خلوص نیت کی۔ ذرا سا خود کو بدلنے کی !کہ خطبہ حجتہ الوداع تک آئیے اور دیکھیے کہ سرور کونین،آقائے دو جہاں صہ ،ساقی کوثر،شافع محشر کیا فرماتے ہیں؟

( تم عورتوں کے بارے میں اللہ تعالی سے ڈرو ، بلاشبہ تم نے انہيں اللہ تعالی کی امان سے حاصل کیا ہے)

تو اگر آپ معاشرے کو امان دینا چاہتے ہیں تو اس کو امان دیجیے جسے آپ نے خالق کائنات کی امان سے حاصل کیا ہے اور آپ اس کے جواب دہ ہیں۔

مگر اس معاشرے کے  اسلامی تربیت سے دور مردوں کو بدلنے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ خواتین پہلے خود کو بدلیں تاکہ وہ اپنے ہاتھ کے پالے بدلنے کی اہل ہوسکیں۔