11ھجری میں جب حضرت عمر فاروق رضہ نےسہل بن عدی رضہ کوصحابہ کےلشکرکےساتھ #بلوچستان بھیجا توصحابہ کرام کالشکربصرہ سے پنجگور پہنچا
پنچگور کامطلب ہی صحابہ کرام کی پانچ گوروں یاقبروں سےہےحالانکہ زمینی طور پہ ان کاکوئی وجود نہیں..
سہل بن عدی رضہ نےعلاقے کادورہ کیا اورکچھ عرصےبعد واپس فاروق اعظم کےسامنے حاضرہوئےاورفرمایا:
“یا امیرالمومنین…
وہاں(بلوچستان) زمین بنجرہے
پانی قلیل ہے
مگرلوگ بہادر و جنگجوہیں ذیادہ لشکر بھیجیں گےتووہ بھوک سےہی مرجائیں گے
اور
کم گئےتومارے جائیں گے….”
چودہ سوسال بعد بھی جیسا سہل بن عدی رضہ نےفرمایا تھا کیچ مکران رخشان وقلات ڈویژن کےعلاقے بالخصوص ضلع واشک اور ضلع آواران آج اس جدید ترقی یافتہ دورمیں بھی قرون وسطی کاوہی صدیوں پرانامنظرپیش کررہےہیں..
صاحبو ویسے توپورا سرزمین بلوچستان ہی امیرہوتےہوئےبھی پسماندگی کی چکی میں پس رہا ہے..
اس کی قسمت سوئی ڈیرہ بگٹی کےگیس و تیل کےذخائر سےبدلی
نا سیندک کےسونےتانبےسے
اور ناہی گوادر پورٹ
یا سی پیک سے…..
بلوچستان کےسب سےپسماندہ ترین اضلاع واشک اور آواران کی پسماندگی غربت اورجدید دور کی تمام سہولیات سےمحروم دیکھ کرمجھے پتھرکازمانہ یاد آگیا..
یہاں پانی بھی زیرزمین گہرائی دوسو فٹ سےپانچ سوفٹ تک چلی گئی ہے جس کی وجہ سےزمین ذیادہ آباد نہیں ہورہی..
اس حلقے کی عجیب بات یہ ہےکہ اس حلقے سے جب سے جمہوریت کا دور شروع ہوا ہے آج تک بالاترتیب ایم این ایز ہوکر گزرے ہیں …..
پرنس محی الدین آحمدزئی بلوچ’مولانا صدیق شاہ’ مولانا عبدالغفور حیدری’سردار اخترجان مینگل’ثناء بلوچ’مولانا رحمت للہ ‘سردار فتح محمدحسنی’احسان اللہ ریکی’جنرل قادر بلوچ اور’اب میر احسان اللہ ریکی قومی اسمبلی کےرکن ہیں
جبکہ واشک کےایم پی اے زاہدریکی صاحب
اور آواران کےصوبائی اسمبلی کےرکن عبدالقدوس بزنجو صاحب ہیں…
ہم لوگ ضلع واشک کی تحاصیل بسیمہ اور ناگ سےگزرے پہاڑوں میں گھرے کچےمکانوں میں رہنے والے ان مکینوں کو قیام پاکستان سےلےکرآج تک
بجلی پانی گیس تعلیم صحت ذرائع مواصلات اور روزگار کےمواقع ناہونے کےبرابر ملے
حالانکہ مرکزی جماعتوں کےعلاوہ دینی اور قوم پرست جماعتیں یہاں کےسیاہ وسفید کےمالک بنے رہے
مگرافسوس اسمبلیوں میں لمبی لمبی چھوڑنے والے قوم کےنام نہادنمائندوں نےان کےکسی درد کا درمان نا کیا اور ان کی حالت عوامی نمائندے بدلنےکےباوجود آج تک نابدلی..
یہاں کےلوگوں کاگزربسر بارش اور سینکڑوں فٹ زیرزمین پانی سے کھجوراور سبزیاں کاشت کرنا’
اونٹ گائےبکریاں پالنا’
‘پنجگورسےسوکلومیٹر آگےایران بارڈر سےڈیزل لاکرپانچ ہزار کی مزدوری کرناجس پہ ابھی تبدیلی سرکارنےپابندی لگاکر ہزاروں نوجوانوں کوبےروزگار کردیا..
سوچ کرکانپ جاتا ہوں کہ کہیں ان نوجوان نےبھی بےروزگاری غربت اور پسماندگی سےتنگ آکر پہاڑوں کارخ کرلیا تو اس کاجوابدہ کون ہوگا؟؟
گھرکاچولہا جلانےکےلئےدشمن کےبچے اسکول جانےکےبجائے پھٹےپرانے کپڑوں میں ملبوس اور ادھڑےہوئے بوٹوں سے یہ بلوچ بچےوہاں سی پیک روڈ کےکنارے تربوز کےبھنےہوئے بیچ’ بیر’ اور کھجور وغیرہ بیچ رہے تھے
جبکہ نوجوان ایرانی ڈیزل اور ایرانی اشیاء بسکٹ کیک ٹافی ودیگرسامان سستے داموں فروخت کرکےاپنا گزرنا کررہے تھے…
یادرہےکہ کیچ ڈویژن کےاضلاع پنجگورتربت گوادر کی پندرہ لاکھ کی آبادی میں بجلی بھی ایران سےآتی ہے..
آواران قلات ڈویژن میں جبکہ ضلع واشک رخشان ڈویژن کا سب سےبیک ورڈ ترین ایریا ہے
یہاں کےباسیوں کےلئے واحدروڈ چائنا نےسی پیک کی صورت میں بنایا جس سے ان کو سفر میں تو کافی حدتک آسانی ہوگئی مگر ذیلی مضافاتی سڑکیں بہت کم ہیں
بطور پاکستانی یہاں کےعوامی نمائندوں نےہمیشہ انہیں نظراندازکیا حتی کہ الیکشن کےبعد اپنےحلقوں تک کابھی دورہ کرنا گوارہ نہیں کیا..
اس قحط الرجال و مشکلات کے کےباوجود اس سہ روزہ 25
..26اور27جنوری کےسفر گوادر میں میں نے کسی غیرت مند بلوچ بچے کو سڑک کنارے بھیک مانگتےہوئے نہیں دیکھا..
کسی خوددار بچےکومسافروں کےسامنے ہاتھ پھیلاتے نہیں دیکھا…
جیسا کہ دیگرصوبوں وعلاقوں میں آپ نےبکثرت ایسے مناظردیکھےہوں گے..
یہاں بلوچ خواتین اکثرگھروں میں گرہستی میں مصروف عمل رہتی ہیں باہرکسی ضروری کام کےلئےپردے کےبغیرنہیں نکلتیں..
نماز اور روزے کے پابند ہیں…
فرقہ واریت و شرک سے بہت پرے ہیں..
ہمیں راستے میں مختلف گاؤں و کلیاں بھی نظرآتی رہیں مگر کوئی بلیک ٹاپ روڈ کاراستہ نظرنہیں آیا
جوسرکار یا عوامی نمائندوں نےان کےآنےجانےکےلئےبنایاہو..
اور نا ہی کوئی افتتاحی بورڈ نظر آیامجھے…
قلات ڈویژن کےپسماندہ ترین ضلعےآواران کا سوکلومیٹر دوگھنٹے کاراستہ آج بھی چھ گھنٹوں میں طےہوتا ہےکیونکہ وہاں جانے کے لئے کوئی روڈ تک نہیں..
یہاں 2015میں خوفناک زلزلہ آیا جس نےان کےکچےگھروں کوبھی مسمار کردیا
پھرملک بھر کی فلاحی تنظیموں الخدمت فاؤنڈیشن’ کسٹمز ہیلتھ کئیرسوسائٹی’ فلاح انسانیت’ بلوچستان کےبیوروکریٹ عزیز جمالی وغیرہ نے یہاں ریلیف کابھرپور کام کیا متاثرین کونئےمکانات بناکردئیے
ان کوآواران کےغیور عوام آج بھی محبت سےیادکرتے ہیں…
رخشان ڈویژن کےضلعے واشک کی تحصیل ناگ میں ہمارےقافلہ سخت جان نےقہوہ چائے ایرانی بسکٹوں کےساتھ نوش کئے….
یہاں پانی کےساتھ دودھ کی بھی شدیدکمی ہے
جبکہ ایرانی تیل آپ کو ساٹھ سےستر روپے فی لیٹر میں بآسانی مل جائےگی
مطلب یہاں پانی مہنگا تیل سستا ہے…
ویسے تو محسن ہمسفر بشیرماندائی ایوب منصور امین بگٹی لیاقت حفیظ یوسف صاحبان وغیرہ کے گیارہ رکنی قافلے کا ہم بھی حصہ تھےجوکہ دراصل جماعت اسلامی کے صوبائی رہنما مولانا ہدایت الرحمن بلوچ کےوالد کی وفات پہ تعزیت کےلئےسربندرگوادر جارہےتھے
اور اس تین روز میں ہم نے سرزمین بلوچستان کےگیارہ اضلاع کے 2500 کلومیٹر بائے روڈ ایک طویل اورتھکادینےوالا سفر کیا ..
جوکہ یقیناً خود ایک ریکارڈ ہے..
گوکہ اس دوران سفر مشاہدے کاموقع تفصیلی نا ملا مگر
صاحبو درد کوسمجھنےکےلئےایک لمحہ ہی کافی ہوتاہے..
گوادر تک راستے میں ان گنت ایف سی کی سیکیورٹی چیک پوسٹوں پہ روکاگیا
“…. کون ہو
کہاں سےآرہےہو
کہاں جارہےہو
کیوں جارہےہو چلو کارڈ دکھاؤ….ڈکی کھولو….”
یہ سلسلہ بہت دراز رہا ایف سی کےبعدلیویزچیک پوسٹ جبکہ کوسٹل ہائی وے کراچی پہ کوسٹ گارڈ الرٹ رہے….
معمول سےذیادہ چیکنگ ہورہی تھی
کیونکہ ہماری قسمت ظریفی کہ
ہم اسی دن کیچ پہنچےجس دن شہیدبانک کریمہ بلوچ کی میت کو کینڈا سے واپسی پہ ان کے آبائی گاؤں تمپ میں ان کی تدفین بھی ہورہی تھی ….
نمازجنازے کے تمام روٹس مکمل بند تھے موبائل نیٹ ورک بھی بندتھے
جبکہ تمپ کےضلعی ہیڈکوآرٹر تربت میں مکمل شٹرڈاؤن ہڑتال اور ایک دن کاکرفیو بھی لگا ہوا تھا ….
ہرجگہ سیکیورٹی اہلکار دندناتے پھر رہےتھے…..
جبکہ خضدار کے بعد پورے کیچ مکران میں انٹرنیٹ سروس بھی کئی دن سے معطل تھی ..
کرفیو کی وجہ سے ہمیں ابومعصب کےہاں کھجوروں کےشہر پنجگور میں ہی وہ رات گزارنی پڑی ..
پنجگور میں کافی سردی چل رہی تھی
میزبان نےدوتین الہ دین (ایرانی چولہا جو گاسلیٹ کی تپش سے کمرے کوگرم کرتاہے)کو بیچ کمرے میں لاکر رکھ دیا
جس سے کمرہ آدھےگھنٹے میں ہی گرم ہوگیا..
صبح سویرے پنچگور سےتربت پہنچے
تربت میں صبح کےوقت بھی سخت سیکیورٹی چیکنگ چل رہی تھی کیونکہ تمپ وہاں سے قریب ہی ایک آدھ گھنٹےکی ہی مسافت پہ تھا جہاں بانک کریمہ بانو کی آخری رسومات سرکاری نگرانی میں ہورہے تھے تربت سے آگے ہمیں نہیں جانےدیاگیا…
ایف سی کےایک جوان نے ہمیں روکا اور شناخت چیک کی
میرے ہاتھ میں موبائل دیکھ کرچونکا
اور مجھ سےموبائل مانگتےہوئےکہا”کہیں ہماری وڈیو تو نہیں بنارہےہو؟
میں مسکرایا
“نہیں جناب “
اس نےجھنجھلا کرموبائل واپس کرتےہوئےکہا کہ
“سوری
گزشتہ 36گھنٹوں سےمسلسل ڈیوٹی پہ ہیں کریمہ خود تو شہید ہوگئیں باقی سب کو عذاب میں ڈال گئی…”
میں مسکرادیا
اس نےبھی تسلیم کیا کہ کریمہ شہیدہے
کیا بات ہے بانک…
اللہ تھرا بہشت نصیب کنت…
ڈھلی جو شام سفر آفتاب ختم ہوا
کتاب عشق کا ایک اور باب ختم ہوا
وفا کی راہ میں نقد جاں ہی باقی تھا
سو اس حساب میں یہ بھی حساب ختم ہوا
اسی روزکئی مقامات پہ غائبانہ نمازجنازہ پڑھانےکی بھی اطلاعات ملیں…
تربت شہر بہت خوبصورت تھا کھجورکےباغات شہرکےاندر روڈراستے بہترین تھے
ڈاکٹر مالک بلوچ نے یہاں واقعی اچھا خاصا کام کیا..
سربندرجیٹی گوادر گئےتووہاں البتہ انٹرنیٹ سروس بحال تھی
مولانا ہدایت الرحمن بلوچ سےتعزیت کی..
انہوں نےبتایا کہ ابھی ابھی وہ کریمہ بلوچ کی غائبانہ نمازجنازہ پڑھوا کرآرہے ہیں
مجھےبےاختیار مولانا عبدالحق بلوچ صاحب مرحوم یادآگئے
وہ بھی ایک بڑے قوم پرست جماعتی تھے جب فوت ہوئےتو مذہبی سیاسی جماعتوں کے ذیادہ قوم پرست جماعتوں نےتعزیت کی
خدا رحمت کنند ایں عاشقان پاک طینت را
فراغت کےبعد سربندر جیٹی کا خوبصورت ساحل دیکھا …
ہزاروں کشتیاں وہاں کنارے کھڑی تھیں
کئی ماہی گیرمچھلی پکڑنے گہرے پانیوں میں گئے ہوئے تھے ..
پھرایک دوست کےطفیل ہمارےقافلے نےگوادر پورٹ کا اندرونی وزٹ بھی کیا وہاں کسی عام افراد کوجانے کی اجازت نہیں ہے..
خوبصورت گوادر پورٹ کوپاکستانیوں اور چینیوں نےدل سےبنایا ..
گوادر دنیا کےبہترین پورٹس میں شامل ہے سیکیورٹی خدشات کی بنا پہ پورٹ کی جانب مقامی ماہی گیروں کومچھلیاں پکڑنےکی اجازت نہیں تھی…
وہ سمندر کےمغربی حصے میں مچھلیاں پکڑنےجاتے ہیں
وہاں کشتیاں بنائی بھی جارہی تھیں…
ہم سب نےگوادر کامشہور گوادری حلوہ خریدا…
واپسی کوسٹل ہائی وے کی طرف سےہوئی زیروپوائنٹ واوتھل سےگزرتےہوئے
رات لسبیلہ میں عبدالمالک رونجھا کےہاں گزاری ..
صبح دوبارہ ڈوم کاسفر شروع ہوا
سردار اختر مینگل کےحلقے وڈھ ونال سےخضدار پہنچے
ایک کار کو ہم نےخود روڈ کنارےحادثےکےبعددیکھا
خود دوبار ہماری گاڑی کوحادثہ ہوتے ہوتے بچا…
کراچی کوئٹہ آر سی ڈی ہائی وے کوڈبل کرنے کی واقعی اشد ضرورت ہے…..
آئےروز یہاں حادثات سےقیمتی جانیں ضائع ہوجاتی ہیں..
وڈھ بازار کے روڈراستوں پہ نظرپڑی جن کی حالت بہت بری تھی بادی النظر میں ترقیاتی کام بہت کم نظرآئے..
قوم پرست رہنماؤں کوصوبہ سدھار سے پہلے اپنے حلقےاپنے گھرکو سنبھالنا چاہئے..
خضدار سے ونگو ہلز کی خوبصورت وخطرناک چڑھائی سے گزرتے ہوئے جھل مگسی کےشمبانی ڈھابہ لکڑا ہوٹل پہ پیالہ چائےکے بعد اپنے گھر جعفرآباد پہنچ گئے..
تمام سفر حوالے سے مجموعی طور پہ میں یہی کہوں گاکہ پورے مکران ڈویژن اور قلات و رخشان کےاضلاع بالخصوص واشک اور آواران میں فوری ترقیاتی کاموں کاجال روزگار صحت پانی بجلی اورگیس کی اشد ضرورت ہےان کوسی پیک سےکوئی زمینی فائدہ نہیں مل رہا بلکہ سی پیک روڈ سے ان کےجھونپڑی نما ہوٹل یا دکانیں قریبا آدھا کلومیٹر دور دھکیلےگئےہیں شاید سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے یہ کیاگیا ہو مگر اس سے ان کا چھوٹا موٹا کاروبار بھی ٹھپ ہوگیا ہے…
ظاہرہے ایسی ہی محرومیوں ظلم وجبر اور پابندیوں کےبعد تو اچھا خاصا بندہ بھی باغی بن جاتاہے…
وفاقی تبدیلی سرکار اور جام سرکارکو یہاں ایک بہت بڑا پیکج فوری طور پہ دیناچاہئے تاکہ نوجوانوں کو روزگار کےمواقع مل سکیں…
گزشتہ سال بسیمہ کےعلاقےساجد میں زلزلہ متاثرین جن کےمکانات منہدم ہوگئےتھےان کی بھی دادرسی کی جائے…
وزیراعلی بلوچستان اورصوبائی نمائندوں کےساتھ ضلعی انتظامیہ کوبھی ان علاقوں میں انقلابی اقدامات کرنےکی اشدضرورت ہے…
ایرانی ڈیزل کی بندش کی جگہ نوجوانوں کومتبادل روزگار فراہم کیا جائے یا ڈیزل لانے کا پرمٹ سسٹم بنانا چاہئے..
بندش سے چالیس ہزار نوجوان بےروزگار ہونگے
یہ بھی سوالیہ نشان پتلی واشک بلوچستان کاواحد ضلعی ہیڈکوآرٹر ہےجہاں کوئی کالج نہیں.. واشک کو ڈگری کالج بنایا جائے’
جبکہ آواران کو ایک اچھا ڈبل روڈ دیاجائے
صحت کی سہولیات بھی فراہم کرنا سرکار کی ہی ذمہ داری ہے..
اس عمل سے یہاں کےلوگ وفاق کےقریب ہونگے..
آج بھی اگر عمرفاروق رضہ کادور ہوتا اور وہ سہل بن عدی رضہ کو صحابہ کے کسی لشکرکےساتھ بلوچستان بھیجتےتوواپسی پہ
سہل رضہ کا وہی صدیوں پراناجواب ہوتا….
“یا امیرالمومنین….
وہاں زمین بنجر
اور پانی قلیل ہے
لوگ جنگجوبہادر ہیں
ذیادہ لشکربھیجاتووہ بھوک سےاورکم گئےتومارےجائیں گے