آج دوپہر ایک پروگرام دیکھنے کا موقع ملا۔ نماز پڑھنے کے بعد جمعہ کے دن کوئی دو بجے ٹی وی کھولا تو کسی چینل سے ایک دینی پروگرام آرہا تھا اور بہت ہی اچھا پروگرام تھا ۔ سورہ مائدہ کی پہلی آیت تھی شجا ع الدین شیخ صاحب بہت اچھی تفسیر بیان کر رہے تھے لیکن کیا کہا جا ئے اس چینل یا کسی بھی چینل کے چلانے والوں کو کمانے والوں کو کہ انہیں صرف لگتا ہے پیسے سے ہی غرض ہے اور دوسری بات ہی نہیں ! اچھا خاصا ماحول بنا ہوتا ہے اور ہر طرح کی غلطیاں کوتاہیاں نظر آرہی ہوتی ہیں ، دلچسپی بڑھ رہی ہوتی ہے سمجھیں ایمان بڑھ رہا ہوتا ہے ۔ نجانے کتنے لوگ فیض یاب ہونا چاہتے ہونگے مگر !! افسوس صد افسوس !! مثل شیطان درمیان میں وقفے آجاتے ہیں اور اس پہلے وقفے میں ہی انسان کو گھما دیا جا تا ہے ۔ پہلے وہی شیطان سیدھی راہ پہ بیٹھ کر بہکاؤنگا والی بات ایک اور دینی پروگرام کا ایڈ دکھایا پھر دیکھیں تو چائے ، مکان ، دکان ، بیٹری اور صابن نہ جانے کس کس چیز کے اشتہارات آتے رہے اور پھر ایک چائے کا اشتہار ، عورت مرد کا کھلا ماحول کوئی چھ سات منٹ تک اچھا خاصا بندہ بہک جائے بھٹک جائے پٹری سے اتر جائے جس کو چائے نہیں بھی پینی ہو تو وہ بھی چائے مانگے خود بنانے چلا جائے یا پھر ان خواتین و حضرات کے انداز میں کہیں کا کہیں کھو جائے اور اصل مضمون اصلاح دین پیچھے رہ جائے سلسلہ پھر جڑے اور پھر وہی حرکات !! کہ وعدوں کی پابندی کریں اور جو مسلمان ہونے کی ایک نشانی بھی ہے معاشرتی امن کیلئے جامع کلید بھی ہے مگر ذرا سے پیسوں کیلئے ہر پروگرام میں یہاں تک کہ خالص دینی پروگراموں میں جہاں آیت تلاوت کرکے اسکا ترجمہ اور تفسیر بیان کی جا رہی ہو۔ لوگوں کو رب کا پیغام دیا جا رہا ہو۔ جب کہ احادیث میں صاف کہا گیا ہے کہ” جب اللہ کا کلام پڑھا جا رہا ہو تو اسے غور سے سنو تا کہ تم پر رحم کیا جا ئے “مگر یہاں تو کھلم کھلا خلاف ورزی کے ساتھ مزید خرافات دکھا کر متنفر کیا جا رہا ہے!!! تو بہ استغفار کرنے کی ضرورت ہے ۔
میری علماء کرام سے بھی گزارش ہے کہ جب وہ پروگرام دیکھیں کہ ان کے پروگراموں میں اس نوعیت بلکہ کسی بھی نوعیت کے وقفے دکھا کر اس کی روح کو مجروح کیا جا رہا ہے تو وہ میڈیا والوں کو پہلے اس برائی سے روکیں اور خود بھی احکام الٰہی کی بھرپور پابندی کریں ۔ عورتوں کو اپنا میزبان کبھی نہ بنائیں نا ہی خود عورتوں کے میزبان بنیں۔ لباس کے تقاضے تو خودبخود اس طرح کوئی سنجیدگی پیدا کرینگے اور ناظرین کو بھی توجہ سے پروگرام دیکھنے اپنے اہل خانہ کے ساتھ دیکھنے میں سکون ملے گا ۔ یہ ذرا سی بات نہیں ہے بلکہ شعوری طور پر قابل عمل بات ہے ۔ صبح انیق احمد صاحب کے پروگرام” پیام صبح “میں دیکھیں اتنا بہترین پروگرام ہوتا ہے مگر نیچے سے رنگ برنگی پٹیاں ، بریکنگ نیوز اور نہ جانے کیا کیا چل رہا ہوتا ہے کافی مرتبہ پیمرا کو شکایات دینے کے باوجود یہ چیزیں ختم نہیں ہو پا رہی ہیں ۔
میڈیا کو اتنا آزاد کیسے چھوڑا ہوا ہے ؟ ہم کسی معاملے میں سنجیدہ نہیں ۔ ٹی وی پر مختلف چینلز سے اچھے قابل اصلاح پروگرامز بھی آ تے ہیں ۔ جنہیں لوگ پسند کرتے ہیں شوق سے دیکھتے ہیں ۔ کچھ چھوٹے ڈرامے جیسے”تیرے شکر گزار بندے ” اصلا حی ہوتے ہیں ۔ اسطرح بعض دینی پروگرامز واقعی قابل تحسین ہوتے ہیں مگر اگر ان میں وقفے نہ دکھائے جائیں عوام کا قیمتی وقت اور توجہ ذائل ہونے سے بچایا جائے تو مناسب ہے صرف اسلامی پروگرامز میں ہی نہیں بلکہ دیگر پروگراموں اور خاص طور پر خبروں میں بھی شعور ی طور پر سنجیدہ ہونے کی ضرورت ہے ۔ میں نے خود دیکھا ہے اکثر لوگ شکایات بھی کرتے ہیں تجاویزات بھی دیتے ہیں بگاڑ سے سدھار کی طرف آنے کی ، مگر نہیں کیا پیسہ گند پھیلا کر ہی کمایا جا سکتا ہے ؟ خبریں سنانے والی خواتین خاص کر موسم کی خبریں سنانے والی خواتین لباس کے تمام تقاضوں کو یکسر نظر انداز کرکے مغربی شہریت کی وہ عکاسی کرتی ہیں کہ اللہ کی پناہ!!! مادرپدر آزاد معاشرہ! کیا اسلامی معاشرہ ہوسکتا ہے ؟ اتنی بے باکی ! بے حیائی ، گریبان چاک ، سرجھاڑ منہ پھاڑ، دوپٹہ تو دور کی بات ، اب تو پاجامہ آدھا اور کمریں تک نمایاں ہونا معمول بن گیا ہے ۔ نہ عمر کی قید نہ رتبوں کا لحاظ ، جو میڈیا دکھا رہا ہے شادی بیاہ کی محفلوں میں وہی اپنایا بھی جا رہا ہے بلکہ ڈنکے کی چوٹ پر اپنا یا جا رہا ہے ۔ اب تو میں عام ماسیوں تک کو ان ہی پینٹوں اور کرتیوں میں دیکھا ہے۔ جن بے چاریوں کو نہ دین کا پتا ہے نہ قرآنی احکام کا ، پو چھو تو کہتی ہیں کہ ہمیں قرآن پڑھنا نہیں آتا ، نماز پڑھنا نہیں آتا ۔ ہر فرد پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے ماحول میں سدھار لائے اور اپنے مسلمان بھائی بہنوں کو دین سے جوڑیں ۔ اس سلسلے میں میڈیا بہترین رول ادا کرسکتا ہے ۔ اچھے معیاری دینی مذہبی پروگرامز اور اخلاقی ، ادبی، تہذیبی اشتہارات کے ذریعے مستقل بنیادوں پر احادیث اور آیتوں کی تلاوت بمعہ ترجمہ بار بار دکھا کر لوگوں کے ذہنوں میں شعوری اصلاح راسخ کرواسکتا ہے۔ میڈیا کی ذمہ داری تو آجکل سب سے زیادہ ہے میڈیا کسی ایک فرد کا نام نہیں ہزاروں لوگ اس سے وابستہ ہیں اور با قاعدہ اپنا روزگار کمارہے ہیں ۔ اپنی کمائیوں پر غور کریں ؟؟؟ کیا ہم سے کو ئی بھی سنجیدگی کا مظا ہرہ کر رہا ہے ۔ ہم تو خود اپنے ضمیر کے آگے جواب دہ ہیں بلکہ اس میں بھی فیل ہیں اور پھر کراماً کاتبین کاعمل اور پھر اللہ ہم پر نگہبان ہے تو کیا ہم میں اچھائی اور برائی کا شعوری احساس بھی نہیں؟ “ہم کیوں سنجیدہ نہیں” ؟ اپنے کام میں ، اپنے احساس میں ، اپنی ذمہ داریوں میں ، ہمیں اس کرونا جیسی عذابی صورتِ حال نے بھی نہیں جھنجوڑا جو ہم ہر طرح کی حدود کراس کرتے چلے جارہے ہیں۔ قمر جلال آبادی نے کیا خوب کہا ہے کہ
کر لونگا جمع دولت وز ر اس کے بعد کیا ؟
لے لونگا شاندار سا گھر اس کے بعد کیا؟
کھیلو وسخن کی خوب سجا لونگا محفلیں
دنیا میں ہوگا نام مگر اس کے بعد کیا ؟
ایک روز موت زیست کا در کھٹکھٹائے گی
بجھ جائے گا چراغِ قمر اس کے بعد کیا ؟
ہمیں واقعی سنجیدہ ہونے کی ضرورت ہے پہلے سے کہیں زیادہ تا کہ یہ میڈیا اور پوری میڈیا کی ٹیم ایک دوسرے کیلئے صدقہ جاریہ بنیں ۔