مرغے کی پہلی بانگ پر اس کی آنکھ کھلی ساتھ ہی رکھے سائیڈ ٹیبل پہ دھرے موبائل فون کو اٹھایا تو صبح کے چار بج رہے تھے جلدی سے اٹھی وضو بنایا اور تہجد ادا کرنے کھڑی ہو گئی وہ تھی ہی ایسی رات کے اس پہر جب دنیا خواب و خرگوش کے مزے لوٹ رہی ہوتی تو وہ بستر سے اٹھ کر رب کے حضور سجدہ ریز ہو جاتی، تہجد کے نوافل ادا کرنے کے بعد وہ کچھ دیر تلاوت کرتی اتنے میں فجر کا وقت شروع ہو جاتا فجر کی نماز کے بعد معمول کے اذکار اور پھر باورچی خانے میں ۔
پورے خاندان میں روشانے احمد کے سگھڑاپے کے چرچے تھے ہر گھر میں اسی کی مثال دی جاتی تھی۔ سب پیار سے اسے روشنی کہتے اور وہ تھی بھی اپنے نام کی طرح روشن، چمک دار خو بصورت اور ہر کام میں طاق ۔ آج کل لڑ کیوں کی طرح بناﺅ سنگھار کا کوئی شوق نہ تھا آنکھوں میں کاجل کی معمولی سی دھار ہی اس کی خوبصورتی کو چار چاند لگا دیتی اور وہ اس بات پہ نازاں بھی نہ تھی۔
عاجزی کا پیکر ، خوبصورتی کا مجسمہ ، یونانی دیوی بلکہ یوں سمجھ لیں کہ وہ ناولز کی ہیروئین تھی جو خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ ہر فن مولا ہوتی ہیں۔ دس مرلے کا گھر صاف کرنا اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا گھر کی صفائی کے ساتھ ساتھ وہ واشنگ مشین لگاتی سارے کپڑے دھو کر،استری کر کے الماری میں لٹکا دیتی اور اگر باورچی خانے میں جاتی تو ڈھیروں مزے مزے کے پکوان جھٹ پٹ بنا لیتی۔ عقلمندی، سلیقہ شعاری، نفاست (یہ سب چیزیں) اس میں بدرجہ اتم موجود تھیں۔
آج اسے دیکھنے کے لیے کچھ لوگ آ رہے تھے وہ اس چاند کی مانند تھی کہ جس خاندان میں بھی جاتی اپنی چاندنی سے سب کو منور کر دیتی بہت سے لوگوں کی خواہش تھی کہ یہ چاند ان کے آنگن میں اترے روشنی نے سارا گھر صاف کیا اپنے ہونے والے سسرال کے لیے اچھے اچھے پکوان تیار کیے اور تیاری کرنے کے لیے چلی گئی ۔ وہ آئے ہوئے مہمانوں کو بہت پسند آئی تھی اس کی سلیقہ شعاری اور سگھڑاپے نے سب کا دل موہ لیا تھا۔
ابھی اس کی ہونے والی ساس اس کو انگوٹھی پہنانے ہی لگی تھیں کہ اماں نے اسے جھنجھوڑ کے اٹھایا اٹھ سورج سوا نیزے پہ پہنچ گیا ہے اور مہارانی صاحبہ کی نیندیں ہی پوری نہیں ہو رہیں اٹھ جا نیستی کی ماری ۔ اماں وہ انگوٹھی… وہ مہمان… اس نے بمشکل سر چادر سے باہر نکالا اور اماں سے استفسار کیا لیکن اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی اماں نان اسٹاپ شروع ہو گئیں۔ دیکھی ہے گھر کی حالت کتنا گندہ ہو رہا ہے۔ اڑھائی کمرے کا گھر نہیں صاف ہوتا تم سے، اپنا حلیہ ہی دیکھ لو سر جھاڑ منہ پھاڑ بنی رہتی ہو، نہ ہی پڑھائی لکھائی کی اور نہ ہی گھریلو کام کاج کی، سدا کی پھوہڑ لوگوں کی چھوٹی چھوٹی بچیوں نے سارا گھر سنبھال رکھا ہوتا ہے اور یہاں بس ماں ہی اپنی بوڑھی ہڈیاں گلائے اور ان مہارانی صاحبہ کی نیندیں ہی نہیں پوری ہو رہیں۔
محترمہ روشنی صاحبہ نے بستر سے اٹھ کر گھر کی طرف سرسری سی نگاہ دوڑائی تو بکریوں اور مرغیوں کی پھیلائی ہوئی گندگی اور اماں کے منہ سے جھڑتے پھول اس خوابناک ماحول سے نکالنے کے لیے کافی تھے ۔
بقول شاعر
خواب ٹوٹیں یا بک جائیں
قیمتیں کب وصول ہوتی ہیں