مغربی تہذیب کی یلغار

گزشتہ ایک دہائی سے بھی کم عرصے میں جتنی تیزی سے دنیا کا معاشرتی نقشہ تبدیل ہوا ہے وہ دیکھتے ہوئے اقبال کا یہ شعر بے ساختہ زبان پر آتا ہے

آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں

محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی

انٹرنیٹ کی سہولت متعارف ہوتے ہی انسانی معاشرے نے تیزی سے اپنا تشخص بدلنا شروع کر دیا۔فاصلے سمٹ گئے،نت نئےانکشافات عام ہو گئے،معلومات کی بھرمار ہو گئی۔مخفی مبین ہو گئے۔پردے ہٹ گئےاور ملک و قوم کی حد بندیوں سے نکل کر تہذیبیں آپس میں خلط ملط ہو کر رہ گئیں۔بلکہ ہوں کہنا چاہئے کہ دنیا کے گلوبل ولیج بننے کے بعد اب ایک ہی تہذیب رائج ہوتی جا رہی ہے۔ جن کی سوشل میڈیا پر اجارہ داری ہے وہی ہر زبان زد عام ہیں۔

افسوس کہ اس موثر ترین میدان میں اگر کوئی غالب ہے تو وہ مغربی اقوام ہیں جو اپنے مخصوص ایجنڈوں کے تحت کام کر رہی ہیں اور مسلمان چونکہ بیشتر دنیا میں مغلوب ہیں ،جو آزاد ہیں وہ بھی انہی کے ذہنی غلام ہیں لہذا جو چیز بھی مغربی اقوام کی نسبت سے سامنے آتی ہے اس پر من و عن ایمان لاتے ہوئے پیروی شروع کر دیتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ گذشتہ کچھ ہی عرصے میں مسلم معاشروں میں بھی مغربی تہذیب کا عکس نمایاں دیکھا جانے لگا ہے۔ہمارا کلچر جس پر اسلامی ہونے کا گمان تھا اب خام خیال ہو گیا ہے۔۔رہن سہن،لباس ،طور طریقے سب میں مغربی رنگ غالب نظر آتا ہے۔ نت نئے تفریح کے طریقے پنپ رہے ہیں۔مثال کے طور پر پہلے ہمارے شادی بیاہ میں ہندوانہ رسموں کا رنگ غالب تھا اب انگریزوں کی رسمیں بھی شامل ہو رہی ہیں ۔برایڈل شاور کی فالتو رسم اور برائیڈ نائٹ کی افتراء اور نہ جانے کیا کچھ ۔۔۔پھر ان تمام کارناموں کی ہر لمحے کی رپورٹنگ ۔۔پہلے ہی ہمارے معاشرے میں نکاح ان غیر شرعی رسموں تلے دب کر مشکل تھا اب مزید یہ نئے اضافے سونے پہ سہاگے کا کام کر رہے ہیں، جب نکاح اتنا مشکل ہو گا تو پھر بے حیائی ہی پھیلے گی ۔۔

چلیں یہ تو پھر نکاح کی بات ہے۔اس سے پہلے ہی گرل فرینڈ بوائے فرینڈ کا کلچر ،پھر ناجائز محبتوں کو پروان چڑھاتے ویلنٹائن جیسے دن منانے کی تہذیب،جامعات میں چلے جائیں تو ایک لمحے کو یورپ میں ہونے کا گمان ہوتا ہے،مخلوط نظام تو پہلے ہی تھا مگر کچھ قیود کے ساتھ جو کہ اب یکسر ختم ہو چکی ہیں،نوجوان نسل محرم غیر محرم کے قلادے کو کب سے دور پھینک چکی ہے ۔جنس کی یہ آزادی کیا گل کھلا رہی ہے اس کا اندازہ آئے روز گوش گزار ہوتی خبروں سے بخوبی کیا جا سکتا ہے ۔۔۔۔یہ سب وہ مہلک ہتھیار ہیں جن کے ذریعے ہمارے معاشرے کو اپنی اسلامی اقدار سے دور کر کے کھو کھلا کیا جا رہا ہے۔ان چیزوں کا خمیازہ مغرب خود بھگت رہا ہے کہ وہاں کی معاشرتی زندگی سخت انتشار کی شکار ہے لیکن ہم لوگ پھر بھی ان ہی کی پیروی کو کامرانی کا مظہر سمجھتے ہوئے اطاعت میں جتے ہیں۔مسلمان جس دین کے ماننے والے ہیں اس کی اپنی ایک مکمل تہذیب ہے جس میں ایسا کوئی رخنہ نہیں ہے جسے پاٹنے کے لئے غیروں سے کچھ ادھار لیا جائے۔مگر ہماری نوجوان نسل خصوصا اس ڈگر پر چل پڑی ہے جس کے آگے صرف تاریک رات ہے۔

ایسے میں اس دور کی نوجوان نسل کے والدین کی ذمہ داری دو چند ہو جاتی ہےکہ وہ اپنی اولاد کو اپنی تہذیب سے روشناس کرائیں کیونکہ وہ اپنی اقدار اور اس جدیدیت کے درمیان ایک پل اور ربط کی حیثیت رکھتے ہیں،جن نے اپنی آنکھوں سے تہذیبوں کی اس کشمکش کو اور پھر مغربیت کو رائج ہوتے دیکھا ہے ۔ان کے لئے لازم ہے کہ اپنی اسلامی اقدار کو نئی نسل کے حوالے کریں اور یہ صرف اسی صورت ممکن ہے جب اس نظام حیات کی طرف پلٹیں جو رب کائنات نے ہمیں عطا کیا ہے اب کی لاپرواہی کا خمیازہ نسلیں بھگتیں گی اس لئے ہوش کے ناخن لیں اور اپنی اولین ذمہ داری کو نبھاتے ہوئے اپنی اولاد کی دینی تربیت پر توجہ مرکوز کریں مبادا کہ دیر ہو جائے۔