پاکستان ہمارا وطن ہے اور ہر شہری کے لیے ملکی سلامتی کا تحفظ یقینی بنانا فرض اول ہے۔بحیثیت پاکستانی ہمارا فرض ہے کہ ملکی سلامتی کے تحفظ کے لئے اقدامات کریں۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قومی سلامتی اور خود مختاری کا تحفظ کیسے ممکن ہے؟ کیا اس کے لیے صرف شہریوں کو ہی ذمہ داری اٹھانی پڑے گی یا پھر حکومت بھی اس کار خیر میں حصہ دار ہے۔کسی بھی ملک کی قومی سلامتی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک اس کی نہ صرف قیادت بہترین ہاتھوں میں ہو بلکہ اس کے لیے بہترین خارجہ پالیسی کا لائحہ عمل تیار کیا جائے۔خارجہ پالیسی اور ہمسایہ ممالک سے تعلقات کسی بھی ملک کی قومی سلامتی پر براہ راست اثر انداز ہوتے ہیں۔دور حاضر میں جہاں پاکستان کے تعلقات بھارت جیسے دشمن ملک کے ساتھ سنگین حد تک خراب ہوئے وہیں سعودیہ جیسے دوست ملک کے ساتھ بھی پاکستان کے تعلقات قائم رکھنا دشوار ہوا مگر پاکستان کی حکومت نے ملک کی سلامتی اور بقا کا سودا نہ کیا بلکہ دشمن کے سامنے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس کا مقابلہ کرنے کی پیشکش کی اور اسے گھٹنے ٹیکنے پہ مجبور کر دیا۔
کسی بھی ملک کی بقا، اپنے وقار کا سودا کر کے دشمن یا طاقتور کے سامنے جھک جانا نہیں بلکہ اپنے وسائل کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے اس کا منہ توڑ جواب دینا ہے۔ملک کی سلامتی اسی وقت ممکن ہے جب دشمن کے آگے سیسہ پلائی دیوار بن جایا جائے۔بھارت کی پاکستان سے دشمنی اور جارحیت کا مظاہرہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں،بھارت آئے روز نہ صرف لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کرتا ہے بلکہ کلسٹر بموں اور آبادی پہ اشتعال انگیز فائرنگ سے بھی گریز نہیں کرتا۔مسئلہ کشمیر پہ بھی بھارت کی ہٹ دھرمی قابل دید ہے۔کشمیری عوام کو آئے روز بھارتی افواج کے مظالم کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔پاکستان کی جانب سے بارہا مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے مذاکرات کی دعوت دی گئی مگر بھارت کشمیر سے اپنی افواج بے دخل کرنے سے انکاری ہے۔کئی سالوں سے بھارت کی جانب دوستانہ تعلقات کا ہاتھ بڑھایا گیا جسے ہمیشہ بھارت کی جانب سے جھٹک دیا گیا۔پاکستان ایک امن پسند ملک ہے جو ہمیشہ سے ہی ایشائی خطے میں امن و سلامتی کا خواہاں ہے۔پاکستان کی بقا اس کی واضح اور بہترین خارجہ پالیسیوں کی بدولت بھی ممکن ہوئی ہے۔چین اور ترکی کے ساتھ دوستانہ تعلقات کے ساتھ کئی معاہدے پہ مذاکرات بھی کیے گئے ہیں جو ملک کی ترقی میں سنگ میل ثابت ہو رہے ہیں۔
پاکستان ایک ایٹمی طاقت اور معدنی وسائل سے مالا مال مملکت ہے۔اس حقیقت کے پیش نظر اکثر چھوٹے ممالک پاکستان کو ایک مضبوط قلعہ تصور کرتے ہیں جو اپنی حفاظت خود کرنا جانتا ہے۔
موجودہ حکومت کا اس معاملے کے متعلق بہت واضح موقف ہے کہ ملک کی سلامتی اور خود مختاری پہ کوئی سمجھوتہ نہ کیا جائے گا۔یہ موقف تمام دشمن عناصر اور دیگر ممالک کے لیے پیغام ہے کہ اس سرزمین کو کمزور تصور نہ کیا جائے۔
پاکستان کی قومی خود مختاری اسی وقت ممکن ہے جب اس ملک کو بااختیار بنایا جائے۔اندرون ملک کیے جانے والے فیصلے بیرون ملک برسر پیکار عوامل کے محتاج نہ ہوں۔اپنے وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے، اندرون ملک پیداوار اور معیشت کو مضبوط و مستحکم بنایا جائے۔نئی نسل کے اندر بیرونی طاقتوں سے مقابلہ کرنے کی ہمت پیدا کی جائے۔یہ نوجوان نسل جو ذہانت میں کئی قوموں سے آگے ہے، اس کے لیے ایسے مواقع فراہم کیے جائیں کہ وہ اپنے ملک کی ترقی و تعمیر میں اپنا بھرپور کردار ادا کر سکے۔خود مختار ریاست اسی وقت عمل میں آ سکتی ہے جب اسے بااختیار بنایا جائے۔
اس وقت پاکستان کی سلامتی کو کئی مسائل درپیش ہیں جن کا سدباب کرنا از حد ضروری ہے۔ان مسائل میں بنیادی مسائل عسکریت پسندی اور انتہا پسندی کو شکست دینا ہے۔یہ ایک اہم حل طلب مسئلہ ہے جس کی بدولت ہی اس خطے میں امن ممکن ہے۔معیشت کی بحالی اور توانائی بحران کو حل کرنا بھی ایک اہم اور بنیادی مسئلہ ہے۔معیشت کی مضبوطی کے باعث ہی کوئی ملک ترقی کی جانب گامزن ہوتا ہے۔توانائی بحران گزشتہ کئی سالوں سے پاکستان میں انتہائی خطرناک صورتحال اختیار کر گیا ہے جس کے باعث براہ راست معیشت متاثر ہو رہی ہے۔بچوں کو تعلیم سے آراستہ کرنا ان کا بنیادی حق ہے جبکہ نوجوانوں کے لیے ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنا بھی ریاست کی ذمہ داری ہے۔قومی سلامتی پر ان مسائل کے اثرات یقیناً واضح ہیں۔پاکستان کی بقا اور سلامتی کے لیے ان تمام مسائل کا حل تلاش کرنا اور ان سے نمٹنا بے حد ضروری ہے۔
اندرونی مسائل کے ساتھ ساتھ پاکستان جغرافیائی لحاظ سے بھی جن سلامتی کے مسائل کا شکار ہے وہ بالکل عیاں ہیں۔بھارت سے کشیدہ تعلقات کے ساتھ ساتھ پاکستان نے سالوں افغانستان کے ساتھ برادرانہ تعلقات استوار کیے اور ان کے شہریوں کو کئی سال اپنے ملک میں پناہ دی جس کے باعث پاکستان کو نہ صرف معاشی بحران کا سامنا کرنا پڑا بلکہ پاکستان کا امن و امان بھی شدید متاثر ہوا۔
گزشتہ دنوں پاکستان کو دو نئے بحرانوں کا سامنا کرنا پڑا جن میں سے ایک کرونا وائرس کی بڑھتی ہوئی وبا ہے جس کے باعث دنیا بھر سمیت پاکستان کو بھی معاشی بحران اور بدحالی کا سامنا کرنا پڑا۔اس وبائی دور میں جہاں عوام کو کرفیو کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا وہیں معیشت بری طرح متاثر ہوئی۔کاروبار زندگی مفلوج ہو کر رہ گئے جبکہ اس وبا سے کئی ہزار افراد اپنی زندگی کی بازی ہار گئے۔بے شک اس وبا کے باعث پاکستان کو اتنے سنگین نتائج کا سامنا نہیں کرنا پڑا جتنا کچھ یورپی ممالک نے برداشت کیا مگر اس سال یہ وبا عالمی سطح پر بہت بڑے معاشی بحران کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔اس مشکل دور میں جہاں احساس پروگرام کے تحت غریبوں کو مالی معاونت فراہم کی گئی وہیں عام شہریوں نے بھی کرونا وائرس سے متاثرہ گھرانوں کی بڑھ چڑھ کر مدد کی اور ایک ذمہ دار شہری ہونے کا ثبوت دیا۔ابھی تک اس وبا کے ہاتھوں روزانہ کی بنیاد پر اموات کا سلسلہ جاری و ساری ہے مگر اس کا کوئی حل یا سدباب ممکن نہیں ہو سکا۔
دوسرا بحران کراچی میں سیلاب کی صورت برداشت کرنا پڑا جس نے نظام زندگی کو درہم برہم کر کے رکھ دیا۔طوفانی بارشوں نے جہاں گھروں کو نقصان پہنچایا وہیں نکاسی کا موزوں انتظام نہ ہونے پہ پانی کئی دن تک گھروں میں کھڑا رہا، جس کے باعث نہ صرف لوگوں کی اموات ہوئیں بلکہ قیمتی سامان کا بھی نقصان ہوا۔ذرائع آمدورفت سمیت مواصلات اور بجلی کا نظام بھی بری طرح متاثر ہوا۔معمولات زندگی کو بحال کرنے میں وقت اور کثیر سرمایے کی ضرورت ہے تاکہ معیشت کا پایہ جام ہونے سے روکا جا سکے۔
اندرون ملک جابجا مسائل کا شکار ملک کبھی مضبوط ہو کر اپنی توجہ ملک کی ترقی کی جانب مرکوز نہیں کر سکتا۔پاکستان کو بیک وقت ایک نہیں کئی محازوں پہ لڑنا ہے اور اپنی سالمیت اور خود مختاری کو برقرار رکھنا ہے۔
آئے دن ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمت اس امر کی یقین دہانی کرواتی ہے کہ ملک کی معیشت دن بدن تنزلی کا شکار ہے، جس کے لیے مستقل بنیادوں پر لائحہ عمل تیار کرنے کی ضرورت ہے۔گزشتہ حکومتیں ملک کو بہتر طور پر چلانے کے لیے بیرونی طاقتوں کے سامنے کشکول پھیلاتی رہیں تبھی اب پاکستان بیرونی قرضوں کی لپیٹ میں ہے۔ملک کی ترقی و بقا کے لئے سب سے اہم اقدام ان قرضوں کی ادائیگی اور مزید قرضوں پر انحصار کرنے کے بجائے خود کفالت کی کوشش ہے۔ تعلیم، تعمیرات، توانائی، زراعت، صحت اور نقل و حمل ایسے شعبوں کو ترقی دے کر عوام کے لیے روزگار کے بہتر مواقع پیدا کیے جا سکتے ہیں۔ ہر مسئلے میں اصلاح اور بہتری کا موقع موجود ہوتا ہے۔حکومت پاکستان کو عام عوام کی فلاح اور بہبود کی کوشش کرنی چاہیے۔آئے روز بڑھتی ہوئی مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔درمیانہ طبقہ اپنے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہو گیا ہے۔غربت بڑھتی جا رہی ہے اور عام عوام پر ٹیکس کی بھرمار کر دی گئی ہے۔جہاں ایک طرف یہ ٹیکس کی وصولی بیرونی قرضوں سے نجات کا باعث بنے گی وہیں فالوقت یہ عوام کے لیے بہت بڑا دھچکا ثابت ہو رہی ہے۔حتکہ جان بچانے والی ادویات کی قیمت میں بھی ستر فیصد اضافہ کر دیا گیا ہے۔علاج معالجے کی سہولیات فالوقت بھی ہر شہری کی پہنچ میں نہیں ایسی صورت میں ادویات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ عام عوام میں پریشانی کا سبب ہے۔
کسی بھی ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے ملک کے عوام کو سہولیات فراہم کرنا ریاست کی اولین ذمہ داری ہے۔گزشتہ کئی سالوں سے عوام ملک میں جابجا مسائل کے باعث ذہنی سکون سے محروم ہیں۔ملک کے اندر فسادات، تفرقہ بازی عام ہے، مہنگائی کے باعث چوری اور دیگر جرائم بھی بڑی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔بحیثیت ملک پاکستان کو معاشی، معاشرتی، سماجی، اقتصادی بحران کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔گزشتہ سالوں میں عرب ممالک کو درپیش مسائل کے پیشِ نظر کئی بیرون ملک مقیم پاکستانی واپس پاکستان منتقل ہو گئے ہیں۔اس اقدام سے جہاں ایک جانب کثیر زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی واقع ہوئی ہے وہیں پاکستان کے لیے ان قابل افراد کے لیے نوکریوں اور کاروبار کے نئے مواقع پیدا کرنا ناگزیر ہو گیا ہے تاکہ ان شہریوں کی حوصلہ افزائی کی جا سکے کہ وہ اپنے ملک میں رہتے ہوئے بھی یہاں سرمایہ کاری کر کے اپنی معیشت کو مستحکم بنانے میں فعال کردار ادا کر سکتے ہیں۔
ملک کی سالمیت اور خود مختاری کی بات کی جائے تو افواج پاکستان کا ذکر ضرور کیا جاتا ہے۔پاکستانی فوج دنیا کی بہترین افواج میں شمار ہوتی ہے۔اس ملک کی سلامتی میں افواج پاکستان کا کردار بہت اہم ہے۔عوام سیاستدانوں اور ان کی پالیسیوں سے جتنا مرضی اختلاف کریں افواج پاکستان کے ساتھ دلی محبت رکھتے ہیں۔عام شہری ہر مشکل وقت میں افواج پاکستان کے ساتھ اظہار یکجہتی اور تعاون کرتے ہوئے ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہوتے ہیں۔
غرضیکہ پاکستان کو اندرونی اور بیرونی جن مسائل کا سامنا ہے ان پر دانشمندانہ قائدانہ صلاحیتوں اور وسائل کے بھرپور استعمال کی بدولت قابو پایا جا سکتا ہے۔ملکی سلامتی اور خود مختاری کے تحفظ کے لیے شہریوں اور افواج کے تعاون سمیت دیگر تمام اداروں کی بھی معاونت درکار ہے تاکہ ملک کی سالمیت پہ کوئی سمجھوتہ نہ کیا جا سکے اور پاکستان کے بہترین مستقبل کے لیے ترقی کی نئی راہیں دریافت کی جا سکیں۔اللہ تعالیٰ ہمارے ملک کو قائم و دائم رکھے کیونکہ ہم سے وطن ہے اور ہم پہچان بھی اس وطن سے ہے۔اللہ تعالیٰ پاکستان کو دن دگنی ترقی عطا فرمائے آمین ثم آمین
تیرے ہاتھوں میں ہے قسمت کا نوشتہ اپنا
کس قدر تجھ سے بھی مضبوط ہے رشتہ اپنا