فروری شمسی سال کا دوسرا مہینہ ہے، اس مہینے میں سردی کا زور ٹوٹتا ہے اور برگ بار پر بہار کی آمد کے ابتدائی آثار نمودار ہوتے ہیں۔ کہر کو توڑتا ہوا بیداری پہ مائل کرتا فروری، اسی کے ساتھ اس کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں دنوں کی تعداد باقی مہینوں سے کم ہوتی، چار سال بعد ایک مزید دن کا اضافہ ہوتا ہے۔ یہ وہ معلومات ہیں جو کہ سب کے علم میں ہیں اس میں دو دہائیوں سے ایک دن کا اضافہ ہمارے ہاں دیکھنے میں آیا ہے۔ یہ نوے کی دہائی کی آخر کی بات ہے کہ 15 فروری کو اخبار میں ایک چھوٹی سی خبر اخبار کے اندرونی صفحات پر تھی کہ” 14 فروری کو دنیا بھر میں محبت کرنے والوں کا دن منایا گیا” یاحیرت یہ بھی کوئی دن ہے۔؟ بہرحال اس کے بعد سے آج تک اس دن کے حوالے سے اخبار کو آگے ہی آگے بڑھتے ہی دیکھا ہے اور اب تو یہ عالم ہے کہ یکم فروری ہی سے اخبار میں اشتہار دیکھنے کو ملا جس میں محبت کرنے والے احباب کو دل کی بات پہنچانے کی سہولت بہم پہنچائی جارہی تھی لکھا تھا کہ اس دن کے لئے پیغام شائع کرانے کے لئے فورا بکنگ کریں۔ ساتھ ہی مختلف چارجز لکھے تھے، یک سطری، دو سطری اور دل وغیرہ کے ساتھ پیغام پر مزید اضافی چارجز تھے۔
بڑے بڑے سٹورز میں چاکلیٹ ، نقلی و اصلی گلاب، لال بھالو( ٹیڈی بیئر) پر خصوصی ڈیل تھی۔ مختلف ہوٹل اور ریسٹورنٹ کی طرف سے خصوصی پیکج دیا گیا تھا۔ موبائیل فون کی دکانوں پر بھی یہی رعایت دیکھنے کو مل رہی تھی۔
ہوٹلوں نے الگ پیکیج دیئے ہوئے ہیں۔ سر عام اس دن کو منانے کی دعوت دی جا رہی ہے۔ یہ سب دیکھتے ہوئے وہ حدیث ذہن میں گھوم گئی ” جب تم حیا چھوڑ دو تو جو چاہے کرو”
جیسے چاہو جیو ، میرا جسم میری مرضی کے گمراہ کن مگر دل فریب نعروں کی دنیا میں معصومیت سے پوچھا جاتا ہے کہ یہ دین دار کہلانے والے دین کے ٹھیکیدار کیوں بنے ہوئے ہیں؟ یہ لوگ آخر محبت کے خلاف کیوں ہیں۔؟
کیوں محبت نہیں کرنے دیتے؟ ان سوالوں کے جواب خود یہ سوال ہی تو ہیں۔ جہاں تک دین کے ٹھیکیدار کے بات ہے تو وہ تو ہمیں قرآن نے کہہ دیا کہ تم میں سے ایک گروہ تو ایسا ہونا چاہیئے جو نیکی کا حکم دے اور برائی سے روکے، جہاں تک محبت ک خلاف کی بات ہے تو اسلام میں نکاح ہے اور حلال محبت پر کوئی روک نہیں ہے۔ اسلام ایسی کسی بےحیائی کی اجازت نہیں دیتا۔ قرآن کہتا ہے مومن عورتیں عفیف ہوتی ہیں، چھپے دوست نہیں بناتیں۔ ہر وہ کام جو چھپ کر کیا جائے گناہ ہوتا ہے۔ کوشش کریں کہ آپ وہاں نہ پائے جائیں جہاں اللہ کی حدیں ٹوٹتی ہوں۔