احمد بس سے اترا اور اینٹوں سے بنی چھوٹی سی سڑک پر چلتے ہوئے، اپنی قسمت کو کوسنے لگا۔ آج مختلف اداروں میں انٹرویو دیتے ہوئے کافی دن گزر گئے تھے، مگر اسے ہر بار کامیابی کے بجائے، ناکامی کا تحفہ ملتا۔ اس کے چہرے پر ناامیدی کے آثار واضح طور پر نمایاں ہو رہے تھے۔ وہ ایک گھنٹے سے مسلسل اپنے ہاتھوں میں تعلیمی اسناد لیے، سڑک پر چہل قدمی کر رہا تھا۔ مایوسی اور ناامیدی کے زیر سائے، وہ اپنی منزل کا تعین کرنا بھی بھول چکا تھا۔ اس کے ذہن میں سوچوں کا مسلسل شور تھا۔ اچانک اس کی نظر سڑک کے دوسرے جانب، ہاتھوں میں اخبار لیے، بنچ پر براجمان، اپنی مطلوبہ ہستی پر پڑی۔ خوشی کی لہر احمد کے دل میں اٹھنے لگی۔ وہ بوجھل قدموں سے چلتے ہوئے ان کے پاس جا کر بیٹھ گیا، اور دونوں ہاتھ بنچ پر ٹکا کر پیروں کو گھورنے لگا۔ وہ اس کی پریشانی سمجھ گئے، اور پوچھنے لگے۔ کیا ہوا بیٹا؟ احمد ان کو اپنی پریشانی بتانے کے لیے الفاظ جوڑنے لگا۔
ایک لمحے کے لیے خاموشی چھا گئی۔ پھر وہ بنا اک پل رکے، اپنی پریشانی بتانے لگا۔ وہ کافی دیر بنا ٹوکے بڑے غور سے تمام باتیں سن رہے تھے۔ وہ احمد کا مسئلہ سمجھ گئے، اخبار کو ہاتھ سے لپیٹ کر، کچھ دیر خلا میں دیکھا پھر بولے، بیٹا ایک نظر آسمان پر ڈالو، اور کچھ دیر کے لیے غوروفکر کرو۔ اس نے نظریں اٹھا کر ان کی جانب، سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ قدرت کے ابدی اصولوں کو سمجھنے کی کوشش کرو۔ انہوں نے آسمان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، اپنی ہی بات کا جواب دیتے ہوئے کہا۔ بیٹا! سورج غروب ہوتے ہی آسمان پر شفق نمودار ہوجاتی ہے۔ اسی کے ساتھ ہی چاند نکل آتا ہے، اور اس کے بعد تارے۔۔۔ چاند اور تاروں سے روشنی قائم رہتی ہے۔
چاند کی روشنی سورج جتنی تو نہیں ہوتی ہے، مگر بہرحال روشنی تو ہے۔ اس پورے منظر میں قدرت کا ایک اہم سبق ہے کہ ”امید کبھی ختم نہیں ہوتی۔“احمد متجسس اور نہ سمجھنے والے انداز میں ان کے جانب دیکھتا رہا۔ احمد بیٹا! اس دنیا میں امید اور امکانات کبھی ختم نہیں ہوتے۔ انسان کے اندر بے پناہ فطری صلاحیتیں موجود ہوتی ہیں۔ کسی ایک محاذ پر ناکام ہو جانے سے، انسان ہمیشہ کے لیے ناکام نہیں ہو جاتا۔ اس کے لیے کامیابی کے دوسرے مواقع اور امید کی نئی کرن ہمیشہ باقی رہتی ہیں۔ مگر انسان اپنی اس ایک ناکامی سے اتنا مایوس ہو جاتا ہے، کہ اسے امید کے دوسرے کھلے دروازے نظر ہی نہیں آتے۔ اگر وہ ان پر گہری نظر ڈالے تو احساس ہوگا، کہ امید اور امکان کے گہرے سمندر میں مواقع باقی ہیں اور جو کچھ کھویا ہے، وہ صرف اس سمندر کے ایک قطرہ پانی کے برابر تھا۔ ہر ناکامی میں کامیابی چھپی ہوتی ہے۔ یہ قدرت کا ابدی اصول ہے۔ رات کتنی بھی اندھیری اور طویل ہو، اس کی صبح ہو کر رہتی ہے۔ رات کی سیاہی، صبح کی اور خزاں، موسم بہار کی تمہید ہے۔
گرمی کی شدت میں سرسبزی اور شادابی کی خبر پوشیدہ ہوتی ہے۔ مگر انسان کا معاملہ بھی کتنا عجیب ہے۔ اسے اندھیرے تو صاف نظر آتے ہیں، مگر روشن اجالے نظر نہیں آتے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ امید کا دامن کسی بھی حالت میں نہیں چھوڑے، کسی بھی حال میں مایوس نہ ہو۔ اسے چاہیے کہ نا امیدی میں امید کے پہلو پر نظر رکھے، اور حال کی بنیاد پر مستقبل کی تعمیر کی منصوبہ بندی کرے۔
وہ اٹھ کر جانے لگے۔۔۔ احمد کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر شفقت سے کہا۔ اس دنیا میں امکانات اور امید کی کوئی حد نہیں۔ ہر بار جب ایک امکان ختم ہوتا ہے، اور ایک بار جب امید ختم ہوتی نظر آتی ہے، اسی وقت امید کی نئی کرن نمودار ہوتی ہے۔ مگر یہ صرف ان ہی لوگوں کو نظر آتی ہے، جو امید کی ڈور اور حوصلہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ کر امکانات کے راستوں پر مستقل مزاجی سے گامزن ہوتے ہیں۔ ایک لمحے کے لیے مکمل طور پر خاموشی چھا گئی۔ ان کی باتوں سے احمد کے دل میں امید کا سورج طلوع ہوتے ہی، ناامیدی اور مایوسی کے اندھیرے غائب ہونے لگے۔